صدر اوباما کا دورہ مشرق وسطیٰ اور نئے چیلنجز
19 مارچ 2013اوباما یہ دورہ ایک ایسے وقت پر کر رہے ہیں جب علاقے کا سیاسی اور سٹریٹیجک منظر نامہ مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے اور خطے کے ممالک کو نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔
تیونس، مصر، لیبیا اور یمن میں آمرانہ حکومتوں اور رہنماؤں کا دور ختم ہو چکا ہے ۔ شام میں بشار الاسد کی بظاہر مضبوط نظر آنے والی حکومت بھی زوال پذیر ہے۔ عرب دنیا میں آنے والے انقلاب نے گزشتہ دو سال سے علاقے میں غیر یقینی کی سی صورت حال پیدا کر رکھی ہے۔ اس انقلاب نے سیاسی طور پر دنیا کے غیر مستحکم ترین علاقے میں بہت سے مضبوط ستونوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اسرائیلی اور فلسطینی تنازعہ، ایران کا عالمی برادری کے دباؤ کے باوجود ایٹمی پروگرام جاری رکھنا اور شدت پسندوں کی جانب سےنہ ختم ہونے والے خطرات بھی علاقے کو گھیرے ہوئے ہیں۔
صدر کے عہدے پر دوبارہ منتخب ہونے کے بعد امریکی صدر اوباما نے اپنی سیاسی حکمت عملی میں تبدیلیاں کی ہیں۔ اپنی دوسری اور آخری مدت صدارت میں صدر اوباما کی کوشش ہے کہ وہ خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ ملکی امور پر بھی توجہ مرکوز رکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی حکام نے صدر اوباما کے آئندہ دورہ مشرق وسطی سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی ہیں۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے واشنگٹن نے کوئی نیا فارمولا نہیں دیا ہے۔ مشکل میں گھری فلسطینی اتھارٹی کے لیےکسی بڑی مالی امداد کا اعلان بھی صدر اوباما کے دورے کے دوران متوقع نہیں ہے۔ شام کی کشیدہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے کوئی نئی امریکی حکمت عملی بھی سامنے نہیں آئی ہے۔
امریکی حکام صدر اوباما کے دورہ اسرائیل، فلسطینی اتھارٹی اور اردون کو علامتی قرار دے رہے ہیں۔ اوباما کے دورے کا مقصد اسرائیل کو اس بات کی دوبارہ یقین دہانی کرانا ہے کہ کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لیے اسرائیل واشنگٹن کو اپنے ساتھ کھڑا پائے گا۔ فلسطینیوں کو بھی یہ یقین دہانی کرائی جائے گی کہ ایک الگ فلسطینی ریاست کا قیام امریکہ کی قومی سلامتی کے مفادات میں جبکہ اردن کو شام میں جاری خانہ جنگی کے اثرات سے بچانے کی یقین دہانی کرائی جائے گی۔
حال ہی میں صدر اوباما اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ذاتی تعلقات میں کشیدگی دیکھی گئی ہے۔ دونوں کے درمیان فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی آبادکاری پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ صدر اوباما کے دورے کا مقصد اسرائیل کے خدشات کو کم کرنا اور اس کو سکیورٹی کے لیے ہر طرح کی یقین دہانی کرانا ہے۔ اوباما کے دورہ مشرق وسطیٰ کی خاص بات ان کا اسرائیلی عوام سے خطاب ہے جس میں وہ ان کے ساتھ دوستی اور سکیورٹی کا عہد کریں گے۔ اوباما اپنی تقریر میں یہ ظاہر کرنےکی کوشش کریں گے کہ وہ اسرائیلی عوام کے جذبات سے آگاہ ہیں اور یہ کہ جدید اسرائیلی ریاست صرف ہالوکاسٹ کے نتیجے میں قائم نہیں ہوئی تھی۔ امریکی صدر اسرائیلی آئرن ڈوم میزائل ڈیفنس سسٹم، جس میں امریکہ نے بڑی سرمایہ کاری کی ہے، کی جگہ کا بھی دورہ کریں گے۔ دونوں ممالک کے حکام کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کا اسرائیل کی سر زمین پر غیرمتزلزل حمایت کا اعلان نہ صرف اسرائیلی خدشات کو کم کرنے میں مدد دے گا بلکہ یہ اسرائیل مخالف ایران، حزب اللہ اور حماس کے لیے بھی ایک اہم پیغام ہو گا۔
zh/aa(AP)