صومالی دہشت گردوں پر بھی امریکی ڈرون حملے
30 جون 2011واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکہ کوعلم ہو گیا تھا کہ صومالیہ کی شباب ملیشیا کے ان کمانڈروں کے القاعدہ کے ساتھ رابطے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان روابط پر تشویش ہی کے باعث ان کمانڈروں کو ایک ڈرون طیارے سے حملے کا نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں غالباً یہ دونوں کمانڈر زخمی ہو گئے۔
واشنگٹن پوسٹ نے ایک امریکی عہدیدار کا حوالہ دیا ہے، جس نے اس امریکی جریدے کو یہ بتایا تھا کہ ’گزشتہ کچھ عرصے کے دوران اُن (شباب ملیشیا کے جنگجوؤں) کے حوصلے کچھ زیادہ ہی بڑھ گئے تھے اور ہمارے پوری توجہ اس بات پر مرکوز ہو گئی تھی کہ ہم اُن کی سرگرمیوں کو لگام دیں۔ یہ لوگ صومالیہ سے باہر بھی کارروائیوں کا پروگرام بنا رہے تھے‘۔
اِس امریکی جریدے کے مطابق گزشتہ ہفتے کے اس ڈرون حملے کے ذریعے افغانستان، پاکستان، لیبیا، عراق اور یمن کے بعد صومالیہ وہ چھٹا ملک بن گیا ہے، جہاں امریکہ نے مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کے لیے مبینہ طور پر ڈرون حملوں کا استعمال کیا ہے۔ فوری طور پر اس اخباری رپورٹ پر امریکی فوج کا ردعمل معلوم نہیں ہو سکا ہے۔
جس امریکی عہدیدار کے حوالے سے واشنگٹن پوسٹ نے یہ رپورٹ جاری کی ہے، اُس نے اس جریدے کو یہ بھی بتایا کہ ان دونوں صومالی کمانڈروں کے امریکہ میں پیدا ہونے والے اور آج کل اپنے خاندان کے آبائی وطن یمن میں روپوش کرشماتی مبلغ انور العولقی کے ساتھ ’براہ راست روابط‘ تھے۔
امریکی جریدے کے مطابق اس سے پہلے امریکی طیارے اور خصوصی فوجی یونٹ صومالیہ میں خفیہ آپریشنز تو کرتے رہے ہیں لیکن گزشتہ ہفتے کی کارروائی غالباً پہلا ڈرون حملہ تھی۔
گزشتہ ہفتے شباب ملیشیا کے زیر انتظام جنوبی بندرگاہی شہر کسمایو کے قریب مقامی باشندوں نے بتایا تھا کہ اُنہوں نے زور دار دھماکے سنے تھے، جن کے بعد طیارے کی آواز بھی سنائی دی تھی۔
اس علاقے میں شباب کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ اُس کے ساتھیوں نے شباب کے ایک اڈے پر فضائی بمباری کی خبر دی تھی۔ اپنا نام ظاہر کیے بغیر اس عہدیدار نے بتایا تھا: ’’دشمن کے فوجی طیارے نے ایک ایسے اڈے پر فضائی بمباری کی تھی، جہاں کچھ مجاہدین جنگجو مقیم تھے۔ ابتدائی رپورٹوں سے پتہ چلا ہے کہ مہاجروں (غیر ملکیوں) سمیت بہت سے مجاہدین جنگجو ہلاک ہو گئے۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ طیارہ امریکی تھا۔ ‘‘
رپورٹ: امجد علی
ادارت: افسر اعوان