طالبان حکومت کا قیام اور بھارت کو درپیش چیلنجز
3 ستمبر 2021طالبان کے افغانستان پرقبضہ کر لینے کے تین ہفتے گزر جانے کے باوجود بھارت سرکاری طور پر 'ویٹ اینڈ واچ‘(انتظار کرو اور دیکھو) کی پالیسی پر عمل پیرا ہے تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کی حکومت کے ساتھ نئی دہلی کو روابط کے ایک نئے مرحلے کا آغاز کرنا ہو گا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کے لیے مشکل یہ ہے کہ وہ اس مرتبہ طالبان حکومت سے خود کو کنارہ کش نہیں کر سکتا جیسا کہ نوے کی دہائی میں کیا تھا کیونکہ نئی افغان حکومت کو بھارت کے اتحادی اور حلیف امریکا نے قانونی جواز فراہم کر رکھا ہے۔دوسری طرف بھارت نے افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
بھارت شش وپنج میں
طالبان رہنماؤں کے متضاد بیانات سے بھارت فی الحال شش و پنج میں ہے۔
طالبان کے اہم رہنما شیر محمدعباس ستانکزئی نے بھارت کے ساتھ تجارت اور باہمی تعلقات کو برقرار رکھنے کی باتیں کہی تھیں جبکہ انس حقانی نے کہا تھا کہ طالبان کشمیر میں مداخلت نہیں کرنے کی پالیسی پر عمل کریں گے۔
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے تاہم گزشتہ دنوں ایک برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ مسلمان ہونے کے ناطے یہ ان کا حق ہے کہ کشمیر، انڈیا اور کسی بھی دوسرے ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے آواز اٹھائیں۔ سہیل شاہین کا کہنا تھا،”ہم اپنی آواز بلند کریں گے اور یہ کہیں گے مسلمان آپ کے اپنے لوگ ہیں، آپ کے اپنے شہری ہیں۔ آپ کے قانون کے تحت وہ برابری کے حقوق کے مستحق ہیں۔"
کیا افغانستان میں بھارت کی چال الٹی پڑگئی؟
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان سے جب جمعرات کے روز معمول کی پریس بریفنگ میں طالبان کے دیگر رہنماؤں کے موقف کے برخلاف سہیل شاہین کے بیان پر ان کا ردعمل دریافت کیا گیا تو انہوں نے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔ وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باگچی کا کہنا تھا کہ بھارت اس امر کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی طرح کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔
امیدیں اور خدشات
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باگچی کا کہنا تھا کہ دوحہ میں طالبان کے سینیئر رہنما ستانکزئی سے بھارتی سفیر دیپک متل کی منگل کے روز ہونے والی ملاقات'مثبت‘ تھی۔ متل نے افغانستان کی سرزمین سے ممکنہ بھارت مخالف سرگرمیوں اور دہشت گردی کے حوالے سے نئی دہلی کی تشویش سے آگاہ کیا۔اس کے جواب میں ستانکزئی نے کہا کہ بھارت برصغیر کے لیے بہت اہم ہے اور طالبان حکومت بھارت کے ساتھ افغانستان کے ثقافتی، اقتصادی، سیاسی اور تجارتی تعلقات، ماضی کی طرح ہی برقرار رکھے گی۔
ستانکزئی جب سابقہ طالبان حکومت میں نائب وزیر خارجہ تھے تو انہوں نے 1996ء میں اسی طرح کا بیان دیا تھا۔ لیکن بھارت نے اس وقت نہ تو ان سے ملاقات کی تھی اور نہ ہی ان کے بیان پر کوئی ردعمل ظاہر کیا تھا۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ ستانکزئی بھارت کے فوجی تربیت کے ادارے انڈین ملٹری اکیڈمی دہرہ دون سے تربیت یافتہ ہیں۔
طالبان کے اہم رہنما ستانکزئی انڈین ملٹری اکیڈمی کے تربیت یافتہ
بھارتی حکام کہتے رہے ہیں کہ طالبان کی قیادت کے پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے قریبی تعلقات ہیں۔اس لیے اس بات کا خدشہ ہے کہ پاکستان طالبان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر سکتا ہے۔
پاکستان کی حکمراں جماعت تحریک انصاف کی ایک رہنما نیلم ارشاد شیخ نے حال ہی ٹیلی ویژن پر کہا تھا،”طالبان نے کہا ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہیں اور کشمیر (کو آزاد کرانے) میں ہماری مدد کریں گے۔"
بھارتی تجزیہ کاروں کا تاہم خیال ہے کہ پچھلی بار کے مقابلے اس مرتبہ کے طالبان زیادہ طاقت ور ہیں اور آئی ایس آئی صرف کمزور طالبان کو ہی متاثر کر سکتی ہے۔
طالبان پر یقین کرنا مشکل
سفارتی اور اسٹریٹیجک امور کے بھارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان کے بعض رہنماؤں کے بیانات حوصلہ افزاء تو ہیں لیکن ان پر آنکھ بند کر کے یقین نہیں کیا جاسکتا۔
کابل میں بھارت کے سابق سفیر گوتم مکھوپادھیائے کا کہنا تھا،” آئی ایس آئی سے خود کو الگ رکھنے سے متعلق ستانکزئی اور انس حقانی کے بیانات کا ہمیں خیر مقدم کرنا چاہیے لیکن ہمیں کچھ مشکل سوالات بھی پوچھنے چاہییں اور ان کے قول و عمل پر نگاہ رکھنی چاہیے۔ہمیں بالخصوص اپنی سکیورٹی کے حوالے سے تساہلی نہیں برتنی چاہیے۔"
بھارتی اہلکار کی دوحہ میں طالبان کے اعلیٰ عہدیدار سے اولین ملاقات
بھارت کے معروف تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن میں سینیئر فیلو ہرش پنت کا خیال ہے کہ حالیہ پیش رفت کے مدنظر بھارت کو اپنی سکیورٹی کی ضمانت کے لیے خود اپنا لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔
ہرش پنت کا کہنا تھا،”بھارت کے موقف میں تبدیلی آئی ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ طالبان کے ساتھ براہ راست رابطہ کر رہا ہے۔ لیکن یہ دیکھنے کے لیے بہرحال ہمیں انتظار کرنا ہو گا کہ طالبان جو یقین دہانیاں کرا رہے ہیں ان پر واقعتاً کتنا عمل ہو رہا ہے۔" ہرش پنت کا خیال ہے کہ افغانستان میں ابھرتے ہوئے سیاسی ڈھانچے میں ”طالبان کے ساتھ تعلقات قائم کرنا بھارت کے لیے عملا ً ضروری ہے۔"