طالبان کی پیش قدمی پر اقوام متحدہ کی تنبیہ
23 جون 2021افغانستان میں گزشتہ کئی روز سے اسلام پسند عسکریت گروپ طالبان کے حملوں کی ایک لہر سی چل پڑی ہے جس کی وجہ سے حکومتی فورسز کو کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس صورت پر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شدت سے جاری اس عسکری مہم سے جنگ زدہ افغانستان میں سیاست، سلامتی اور امن کے عمل میں ہونے والی پیش رفت کے الٹ جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ ملک کے شمالی علاقوں میں طالبان بڑے علاقوں پر قبضہ کرتے جا رہے ہیں اور اب وہ اپنے قبضے والے جنوبی علاقوں سے نکل کر مزید خطوں کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔ منگل کے روز طالبان نے شمالی علاقے کے اہم شہر شیر خان بندر پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ افغانستان کا ایک اہم شمالی قصبہ ہے جو تاجکستان کے ساتھ افغانستان کی مرکزی سرحد عبور کرنے کے لیے استعمال آتا ہے۔
منگل کے روز افغان حکام نے کہا تھا کہ طالبان نے ضلع ناہرین اور بغلان کے اضلاع کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ یہ دونوں اضلاع شمالی صوبے بغلان میں واقع ہیں۔
پچاس سے بھی زیادہ اضلاع طالبان کے کنٹرول میں
افغان امور کے اقوام متحدہ کے خصوصی سفارت کار ڈیبورہ لیون نے منگل کے روز کہا کہ گزشتہ مئی کے مہینے سے اب تک طالبان نے افغانستان کے 370 اضلاع میں سے پچاس سے بھی زیادہ پر اپنا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ انہوں نے سکیورٹی کونسل کو بتایا، '' کنٹرول میں لیے گئے یہ تمام اضلاع صوبائی دارالحکومتوں کے آس پاس کے ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جب غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا ہو جائے گا اس وقت ان دارالحکومتوں کو حاصل کرنے کے لیے طالبان خود کو پوزیشن کر رہے ہیں۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''طالبان کی حالیہ پیش رفت اس لیے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ وہ ایک تیز ترین فوجی مہم کا نتیجہ ہیں۔ طالبان کی جانب سے اس شدید فوجی مہم کا جاری رہنا ایک اذیت ناک عمل ثابت ہو گا۔''
امریکی صدر جو بائیڈن نے اس برس اپریل میں افغانستان سے فوجی انخلا کا اعلان کیا تھا جس کے تحت آئندہ گیارہ ستمبر تک تمام امریکی فورسز کو افغانستان سے نکل جانا ہے۔ نیٹو اتحاد کے دیگر ممالک نے تمام فوجیوں کی واپسی کا اعلان کر رکھا ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کی سفارت کار کا کہنا ہے کہ افغانستان میں تشدد اور تنازعے کے بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ آس پاس اور دور دراز کے ممالک میں بھی عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ ہوگا۔
امریکا کی حکمت عملی کیا ہو گی؟
طالبان کی تیز رفتار پیش قدمی اور زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضے کا مطلب یہ ہوگا کہ پھر فوجی انخلا کے باوجود دوسرے طریقوں سے امریکا کو باغیانہ سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے فوجی کارروائی کرنی پڑے گی۔ امریکی حکام یہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ افغانستان میں خفیہ معلومات جمع کرنے کا آپریشن جاری رکھیں گے اور ضرورت پڑنے پر خطے کے کسی پڑوسی ملک سے فوجی کارروائی بھی کرتے رہیں گے۔
لیکن کسی پڑوسی ملک میں امریکا کے لیے نئی فوجی اڈے تلاش کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے کیونکہ اس سے روس اور چین کے ساتھ ایک نئی کشیدگی پیدا ہونے کا خطرہ لاحق ہو جائے گا جو مرکزی ایشیا میں اس وقت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان جیسے پڑوسی ملکوں نے پہلے ہی ایسی امریکی تجاویز مسترد کر دی ہے۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)