طالبان کے ساتھ بات چیت ضروری: میرکل
6 ستمبر 2021جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اتوار کے روز کہا کہ وہ طالبان، جس نے افغانستان کے تقریبا ً پورے علاقے پر قبضہ کرلیا ہے، کے ساتھ سیاسی مذاکرات شروع کرنے کے حق میں ہیں۔
میرکل نے کیا کہا؟
میرکل کا کہنا تھا،”طالبان کے حوالے سے، بہر حال حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ان سے بات کرنی چاہئے کیونکہ اب وہی لوگ اقتدار میں ہیں جن کے ساتھ ہم بات چیت کرسکتے ہیں۔" چانسلر میرکل نے ان خیالات کا اظہار مغربی جرمنی کے شہر ہاگن کے دورے کے دوران کیا، جو گزشتہ برس سیلاب کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات چیت اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ افغانستان میں رہ جانے والے افغانوں کو نکالنے میں مدد مل سکے۔
میرکل نے مزید کہا،”ہم ان لوگوں کو وہاں سے باہر نکالنا چاہتے ہیں جنہو ں نے بالخصوص جرمن ترقیاتی تنظیموں کے لیے کام کیا ہے اور خود کو خوفز دہ محسوس کر رہے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ بات چیت سے ہمیں افغانستان میں انسانی امداد کی ترسیل جاری رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔ جرمن رہنما کا کہنا تھا کہ کابل بین الاقوامی ہوائی اڈے کو حال ہی میں پروازوں کے لیے دوبارہ کھول دیا جانا ایک ”اچھا اشارہ" ہے۔
سی ڈی یو کے چانسلر کے عہدے کے امیدوار آرمن لاشیٹ، جو میرکل کے ساتھ دورے پر موجود تھے، نے بھی طالبان کے ساتھ بات چیت کرنے کی حمایت کی۔
طالبان کا موقف کیا ہے؟
طالبان کے ترجمان نے اتوار کے روز ایک جرمن اخبار سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا گروپ ”جرمنی کے ساتھ مضبوط اور سرکاری سفارتی تعلقات قائم کرنا" چاہتا ہے۔
میرکل نے تاہم یہ واضح نہیں کیا کہ آیا وہ طالبان کے کنٹرول والے افغانستان کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات کی حمایت کرتی ہیں۔
جرمنی طالبان سے بات چیت کرے، گرین پارٹی کی رہنما
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے اس ہفتے کے اوائل میں کہا تھا کہ اگر طالبان دیگر شرائط کی پابندی کرنے کے علاوہ ”بنیادی انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق" کا احترام کرتے ہیں تو جرمنی کابل میں اپنا سفارتی دفتر کھول سکتا ہے۔
افغانستان میں اس وقت کیا صورتحال ہے؟
طالبان نے گوکہ ملک کے بیشتر حصوں پر قبضہ ہوچکا لیکن پنجشیر علاقے پر اب بھی مزاحمتی فورسز کا کنٹرول ہے۔ اتوار کے روز تاہم ایک اہم اپوزیشن رہنما احمد مسعود نے کہا کہ وہ بات چیت کے لیے تیا ر ہیں۔
احمد مسعودقومی مزاحمتی فرنٹ (این آر ایف اے) افغانستان کے سربراہ ہیں۔
احمد مسعود نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک بیان میں کہا،”این آر ایف اصولی طورپر موجودہ مسائل کو حل کرنے کے لیے تیار ہے اور جنگ کو فوراً بند کرنا اور بات چیت شروع کرنا چاہتا ہے۔"
امدادی سامان کی ترسیل، کابل ایئر پورٹ دوبارہ کھول دیا گیا
انہوں نے مزید کہا،”ایک دیرپا امن کے قیام کے لیے این آر ایف اس شرط پر جنگ روکنے کے لیے تیار ہے کہ طالبان بھی اپنے حملے اور پنجشیر اور اندراب میں اپنی فوجی نقل و حمل روک دیں۔"
دونو ں فریق ایک سیاسی حل کے لیے علماء کی ایک مذہبی کاونسل کی ثالثی میں جلد ہی ملاقات کرسکتے ہیں۔
احمد مسعود کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش ایسے وقت سامنے آئی ہے جب طالبان کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ ان کے جنگجو پنجشیر کے صوبائی دارالحکومت میں داخل ہوچکے ہیں۔
طالبان دوبارہ اقتدار پر کیسے آگئے؟
امریکا نے نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے قصور وار القاعدہ کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے سن 2001 میں افغانستان پر حملہ کردیا تھا۔ افغانستان پر حملہ کرکے اس نے طالبان کو اقتدار سے بے دخل کردیا۔ جنہوں نے سن 1996سے ملک کا کنٹرول سنبھال رکھا تھا اور ایک سخت اسلامی قانون نافذ کردیا تھا۔
اپریل میں امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے تمام غیر ملکی فوج کے مکمل انخلاء کا اعلان کیا، جو گذشتہ بیس برس سے وہاں موجود تھے۔ جرمنی سمیت دیگر نیٹو ممالک نے بھی اس پر عمل کرتے ہوئے اپنی اپنی فوج وہاں سے نکال لی۔ غیر ملکی افواج کے انخلاء کے نتیجے میں طالبان نے انتہائی برق رفتاری کے ساتھ ملک کے بیشتر حصوں پر 15 اگست تک قبضہ کر لیا تھا۔
طالبان سے بات چیت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے، جرمنی
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن اگلے ہفتے جرمنی کا دورہ کرنے والے ہیں۔ اس دورے کے دوران وہ جرمن رہنماوں کے ساتھ افغانستان کی صورت حال پر تبادلہ خیال کریں گے۔ بعض جرمن رہنماوں نے افغانستان سے امریکا کے انخلاء کی نکتہ چینی کی ہے۔
ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے پی ڈی پی اے)