عالمی ایجنسیاں تفتیش کے لیے نیروبی پہنچ گئیں
26 ستمبر 2013کینیا کے وزیر داخلہ جوزف اولی لینکو نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا: ’’ہم اگلے مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ تفتیش جاری ہے جس کے لیے امریکی، برطانوی اور اسرائیلی ایجنسیوں کےساتھ ساتھ کینیا کو جرمنی، کینیڈا اور انٹرنیشنل پولیس ایجنسی انٹرپول کی مدد بھی حاصل ہے۔
انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ شہریوں اور سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکتوں میں اضافہ نہیں ہو گا اور شاپنگ سینٹر سے ملنے والی مزید لاشیں حملہ آوروں کی ہو سکتی ہیں۔ ابھی تک سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق مرنے والوں میں 61 شہری، چھ سکیورٹی اہلکار اور پانچ حملہ آور شامل ہیں۔
حکام نے حملہ آوروں کی تعداد دس سے پندرہ تک تھی۔ وزیر داخلہ کے مطابق تفتیش کار اس بات کا پتہ لگائیں کہ آیا حملہ آوروں میں کوئی خاتون بھی شامل تھی یا نہیں اور کیا اس گروہ نے حملے کی تیاری کے لیے مال میں کوئی اسٹور کرائے پر لے رکھا تھا۔
نیشنل ڈیزاسٹر آپریشن سینٹر کے ایک اعلیٰ اہلکار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’’تفتیش کار دہشت گردوں کی پہچان اور قومیتوں کی شناخت کے لیے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور ڈی این اے کے نمونے بھی حاصل کریں گے۔‘‘
سکیورٹی فورسز نے چار روز تک شاپنگ سینٹر کا محاصرہ کیے رکھا جس میں شدت پسندوں نے متعدد افراد کو یرغمال بنایا ہوا تھا۔ کینیا کی فورسز نے حملہ آوروں پر منگل کو قابو پایا۔
صومالیہ کے اسلام پسند گروہ الشباب نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے جس میں کم از کم 72 افراد ہلاک ہوئے۔ اس دوران شاپنگ کمپلکس کو بھی نقصان پہنچا۔
شدت پسندوں نے نیروبی میں ویسٹ گیٹ مال پر ہفتے کو دھاوا بول دیا تھا۔ الشباب نے بدھ کو رات گئے ایک آڈیو پیغام میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
یہ پیغام الشباب سے وابستہ ویب سائٹ صومالی میمو ڈاٹ نیٹ پر جاری کیا گیا جس میں اس کے رہنما مختار ابو الزبیر کا کہنا تھا کہ یہ حملہ کینیا کی جانب سے صومالیہ میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن میں حصہ لینے کے ردِ عمل میں کیا گیا۔
اس بیان میں اُس کا مزید کہنا تھا: ’’اپنے فوجیوں کو نکال لو یا طویل جنگ، خون، تباہی اور انخلاء کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘
کینیا کے صدر اوہورو کنیاٹا کہہ چکے ہیں کہ ان کی فورسز صومالیہ سے نہیں نکلیں گی۔