عالمی مدد کے بغیر لیبیا دوسرا شام بن سکتا ہے، محمد الدیری
24 دسمبر 2014لیبیا میں سابق آمر معمر قذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے یہ ملک شدید بحران کا شکار ہے۔ تیزی سے بڑھتی سیاسی خلیج کے تناظر میں نہ صرف اس ملک شہریوں بلکہ تیل کے کنووں کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔
لیبیا کے وزیر خارجہ محمد الدیری کا خبر رساں ادارے روئٹرز کو ایک انٹرویو کے دوران کہنا تھا، ’’اگر ہم نے اب درست اقدامات نہ اٹھائے، تو ہم دو برس کے اندر اندر، امید ہے کہ ایسا نہ ہو، بالکل ویسے ہی حالات سے گزر رہے ہوں گے جو 2014ء میں شام میں پیش آئے کیونکہ وہاں عالمی برادری نے مناسب طور پر ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا۔‘‘
الدیری لیبیا کے مشرقی حصے میں قائم اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ لیبیا میں متحارب گروپوں کے درمیان طاقت کے حصول کی پر تشدد جنگ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت کے مخالف گروپ لیبیا ڈان نے رواں برس اگست میں دارالحکومت طرابلس کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔
قبل ازیں ایک گروپ نے جو خود ساختہ طرابلس حکومت کا اتحادی ہے، رواں ماہ کے آغاز میں لیبیا کی دو سب سے بڑی تیل برآمد کرنے والی بندرگاہوں السیدیر اور راس النوف پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے بعد سے تیسرے آئل پورٹ پر قبضے کے لیے جھڑپیں جاری ہیں۔
الدیری نے اپنی حکومت کا مؤقف دہراتے ہوئے کہا کہ تیل کی تنصیبات پر حملے کرنے والوں میں انصار الشریعہ کے عناصر بھی شامل ہیں۔ امریکا انصار الشریعہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے اور اس تنظیم پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ ستمبر 2012ء میں لیبیا کے شہر بن غازی میں واقع امریکی سفارت خانے پر خونریز حملے میں ملوث تھی۔
حکام کے مطابق مختلف اسلام پسند شدت پسند گروپوں کے علاوہ سیکولر سمجھے جانے والے گروپ بھی لیبیا میں تیل کی تنصیبات کا قبضہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لیبیا کے وزیر خارجہ سے جب پوچھا گیا کہ کیا ان کے خیال میں لیبیا امریکی صدر باراک اوباما کی ترجیحات کی فہرست میں بہت اوپر موجود نہیں ہے تو ان کا کہنا تھا، ’’مجھے اس بارے میں یقیناﹰ پریشانی لاحق ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے نیویارک میں انہوں نے اقوام متحدہ کے سیشن سے خطاب بھی کیا اور واشنگٹن میں انہوں نے حکام سے ملاقاتیں بھی کیں تاکہ بین الاقوامی برادری کی توجہ لیبیا میں بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دہشت گردی کے خطرات اور اس کے خلاف جنگ کی ضرورت پر دلائی جا سکے۔
محمد الدیری کا کہنا تھا کہ ملک کے مشرقی حصے میں وزیراعظم عبداللہ الثانی کی قیادت میں قائم حکومت کو انتہائی سنگین مالیاتی بحران کا سامنا ہے، فنڈنگ کے حوالے سے بحران کا سامنا ہے اور وہ بین الاقوامی قرضوں کے لیے رجوع کر سکتی ہے۔
الثانی کی حکومت تیل کی برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی تک رسائی نہیں رکھتی جو طرابلس میں قائم مرکزی بینک کے ذریعے ہوتی ہے۔ الدیری کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت امن مذاکرات کے لیے تیار ہے تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ عمل ظاہر ہے کہ کافی مشکل ثابت ہو گا۔