عراق میں مردم شماری: خطرناک اقدام یا امید کی کرن؟
20 نومبر 2024اس ہفتے کے آخر میں، پورے عراق میں دو دن کے لیے کرفیو نافذ ہے۔ حالانکہ سرحدیں کھلی ہیں لیکن تقریباﹰ 43 سے 46 ملین عام عراقیوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس بدھ اور جمعرات کو کام پر یا اسکول نہ جائیں۔
لیکن اس کرفیو کا مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ تقریباً تین دہائیوں میں پہلی بار عراق میں مردم شماری ہو رہی ہے، جس میں اس بات کے درست اعداد و شمار یکجا کیے جائیں گے کہ عراق میں کتنے لوگ رہتے ہیں، وہ کیا کرتے ہیں اور کیسے رہتے ہیں۔
داعش سے آزادی کے سات سال بعد موصل کی راتیں اب پر رونق
مردم شماری کے لیے خصوصی تربیت یافتہ افراد تقریباﹰ ایک لاکھ چالیس ہزار اہلکار رہائشیوں سے 70 سے زیادہ سوالات کے جواب طلب کریں گے۔ جوابات ٹیبلیٹ پر ریکارڈ کیے جائیں گے اور ابتدائی ڈیٹا 24 گھنٹوں کے اندر دستیاب ہو سکتا ہے۔ عراقی حکام کا کہنا ہے کہ دو ماہ کے اندر تمام نتائج تیار ہو جائیں گے۔
سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ منصوبہ بند مردم شماری ملک کی معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ تاہم، دوسرے لوگ سیاسی حساسیت اور یہاں تک کہ ممکنہ خطرے کے بارے میں فکر مند ہیں۔
عراق کے بارے میں پیرس میں قائم فرانسیسی ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر عادل بکوان کہتے ہیں"عراق کی صورت حال مجموعی طور پر دھماکہ خیز ہے۔ کیونکہ عراقی معاشرے کے مختلف اجزا - شیعہ مسلم، سنی مسلم اور کرد - کے درمیان کوئی بھی مرکزی مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔"
عراق: لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر نو سال کرنے کی تجویز
وہ کہتے ہیں، "ملک کے اکثریتی شیعہ مسلمان، مردم شماری کو ایک 'قومی ضرورت' کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن سنی اسے ملک پر شیعہ تسلط کے لیے ایک طریقہ کار کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اور کرد اس مردم شماری کو مرکزی حکومت کی طرف سے ان کے خلاف استعمال کیے جانے والے ہتھیار کے طور پر سمجھتے ہیں۔"
آخری مردم شماری تقریباﹰ تین دہائی قبل ہوئی تھی
عراق کی آخری مردم شماری 1997 میں صدام حسین کے دور میں ہوئی تھی۔ تاہم، عراق پر 2003 کے امریکی حملے کے بعد سے، جس نے صدام حسین کے اقتدار کا خاتمہ کردیا، کوئی بھی مردم شماری کرانے میں کامیاب نہیں ہوا۔ 2007 کے لیے مردم شماری کی منصوبہ بندی کی گئی تھی لیکن کئی بار اس خدشے کے باعث ملتوی کی گئی کہ اس سے ملک میں عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ 2009 کی ایک کوشش کے دوران، موصل میں کئی مردم شماری کرنے والوں کو بندوق برداروں نے ہلاک کر دیا تھا۔
عراق کو مردم شماری کرنے میں اتنا وقت کیوں لگا اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔
سیاسی بحران، عراقی پارلیمان کا صدر کے انتخاب کے لیے اجلاس
سن 2003 سے، ملک کا سیاسی نظام ایک قسم کے کوٹہ سسٹم پر مبنی ہے جو سب سے بڑے آبادیاتی گروپوں کو طاقت کی ضمانت دیتا ہے۔ عراق کا وزیر اعظم ہمیشہ شیعہ مسلمان، پارلیمانی اسپیکر سنی مسلمان اور صدر کرد ہوتا ہے۔ اس طرح سینئر ترین سیاسی پوسٹیں شیئر کی جاتی ہیں۔
یہ نظام امریکی منتظمین نے 2003 کے بعد ترتیب دیا تھا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مختلف گروہ مناسب نمائندگی محسوس کریں اور اقتدار کے لیے آپس میں نہ لڑیں ۔
مردم شماری جو عراق کی کمیونٹیز کی موجودہ، درست تصویر فراہم کرتی ہو اس توازن کو بدل سکتی ہے۔ اس سے پارلیمنٹ میں نشستوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ عراق میں ہر 100,000 شہریوں پر ایک رکن پارلیمنٹ ہونا چاہیے، جس کی آبادی اب 43 سے 46 ملین کے درمیان ہے۔
عادل بکوان کہتے ہیں "اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ (وفاقی پارلیمنٹ میں) نشستوں کی تعداد 329 سے بڑھ کر 450 کے لگ بھگ ہو جائے گی۔ بہت سے عراقی اپنی کمیونٹی کے سیاست دانوں کو ہی ووٹ دیتے ہیں۔ لہذا یہ دیکھتے ہوئے کہ کردوں میں شرح پیدائش 1.9 ہے اور شیعہ میں، یہ 4.99 ہے، اس کا مطلب ہے کہ شیعہ ملک پر اپنے آبادی کے غلبے کو اور زیادہ مضبوطی سے ظاہر کریں گے۔"
عراق کی شیعہ مسلم جماعتیں اس وقت پارلیمنٹ پر حاوی ہیں لیکن وفاقی پارلیمنٹ اور مقامی کونسلوں میں طاقت کے توازن میں کوئی تبدیلی مختلف کمیونٹیز کے درمیان تناؤ کا باعث بن سکتی ہے۔
'گھوسٹ ورکرز'
عراق کی مردم شماری کے ایک اور متنازعہ پہلو میں ملک کے نام نہاد "متنازعہ علاقے" شامل ہیں۔
یہ ملک کے وہ حصے ہیں جن کے بارے میں عراقی کرد کہتے ہیں کہ شمال میں ان کے نیم خودمختار علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن عراقی حکومت کا خیال ہے کہ یہ وفاقی عراق کا حصہ ہیں۔ یہ معلوم کرنے کے لیے کہ یہ علاقے کس کے ہیں، عراق کے 2005 کے آئین کے مطابق مردم شماری اس کا حل ہونا چاہیے، تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ وہاں کون رہتا ہے۔ لیکن مردم شماری سے ایسے جواب مل سکتے ہیں جو نہ کردوں کو پسند ہوں اور نہ ہی عربوں کو۔
ایک اور مشکل عنصرعراق کی تیل کی آمدنی ہے، جس میں 2023 میں اوسطاً تقریباً 8 بلین ڈالر ماہانہ کا اضافہ ہوا۔ اس آمدن کو عراق کے مختلف صوبوں کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کرنا ہے جہاں کم آبادی والے صوبوں کو ریاستی فنڈز کم ملتے ہیں۔
مردم شماری عراق کے طویل عرصے سے جاری نام نہاد "گھوسٹ ملازمین" کے مسئلہ کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ مبینہ طور پر ایسے ہزاروں ملازمین میں سے دسیوں ایسے ہیں جو عراقی حکومت سمیت متعدد ملازمتوں پر فائز ہیں، اور جو مالکان کو اپنی تنخواہ کا ایک حصہ بطور رشوت دیتے ہیں، تاکہ وہ ڈیوٹی پر آئے بغیر ہی اپنی نوکری برقرار رکھ سکیں۔
تصادم سےبچنے کی کوشش
عراقی حکومت نے مردم شماری سے نسل اور فرقے سے متعلق سوالات کو ہٹا کر ان میں سے کچھ مسائل کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔
کرائسس گروپ تھنک ٹینک میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے پروگرام ڈائریکٹر جوسٹ ہلٹرمین نے کہا کہ اس سے مردم شماری کم خطرناک ہو جائے گی۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "دنیا بھر میں ہونے والی معیاری مردم شماریوں میں یہ سوال (نسل کے بارے میں) شامل نہیں ہوتا ہے کیونکہ یہ نسلی گروہوں کے متعلقہ سائز کے حوالے سے سیاسی طور پر غیر مستحکم مسائل پیدا کرتا ہے۔" انہوں نے کہا "عراقی حکومت کا منصوبہ بند مردم شماری سے اس سوال کو ختم کرنے کا فیصلہ اسے سیاسی طور پر بہت کم حساس بناتا ہے۔"
اور "متنازع علاقوں" کے بارے میں کردوں کے خدشات کے حوالے سے وفاقی حکومت نے 1957 کی مردم شماری کو استعمال کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، جو صدام حسین کے دور سے پہلے، کرکوک جیسے مقامات پر کرد آبادی کے لیے ایک بنیاد کے طور پر کی گئی تھی۔
لیکن بعض عراقیوں نے ان اقدامات کو سیاسی فیصلوں کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو مردم شماری کی اہمیت کو کم کرتی ہے۔
مثبت نتیجہ
کرائسز گروپ میں عراق کے أمور کے ماہر ہلٹرمین، کا خیال ہے کہ مجموعی اثرات مثبت ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ "اتنے طویل عرصے کے بعد (مردم شماری) عراقی معاشرے کے بارے میں اہم معلومات فراہم کرتی ہے جیسا کہ اس نے ترقی کی ہے۔ یہ ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔"
انہوں نے کہا "یہ بات اپنی جگہ ہے کہ اس میں بدعنوانی ہو سکتی ہے یا نہیں، لیکن درست، تازہ ترین معلومات کے ساتھ آپ کم از کم حقیقت پر مبنی ترقیاتی حکمت عملی شروع کر سکتے ہیں۔"
عراق میں سیاسی تعطل ختم کرنے کے لیے بائیڈن کا قومی مکالمے پر زور
مزید برآں، انہوں نے دلیل دی کہ مختلف نسلی گروپوں کے سائز کے بارے میں ڈیٹا کی کمی ایک اچھی چیز تھی۔
اس طرح، یہ پرتشدد تنازعات کو روکنے میں مدد کر سکتا ہے،" انہوں نے کہا۔ "عراقیوں کو سب سے پہلے شہری ہونا چاہیے اور حکومتی حکمت عملی کے مطابق ان کے ساتھ یکساں شہری کے طور پر سلوک کیا جانا چاہیے۔ معاشرے کو نسلی گروہوں میں تقسیم کرنا، جیسا کہ لبنان میں ہوا ہے، صرف پرتشدد تنازعات کا خطرہ بڑھاتا ہے۔"
ج ا ⁄ ص ز (کیتھرین شہیر)