عراقی شہر کرکوک کا مستقیل
2 اکتوبر 2006ستمبر کا مہینہ کرکوک کے لئے خونریز ترین مہینہ ثابت ہوا ہے۔ باغیوں کے حملوں کا بظاہر مقصد عراقی آئن کی شِق نمبر 140 کے نفاز کو روکنا ہے۔ اِس شِق میں شمالی عراق کی کُرد شناخت کو بحال کرنے کے لئے تین مراحل پر مبنی ایک منصوبے کی بات کی گئی ہے۔ سابق صدر صدام حسین کے دور میں اِس علاقے میں عرب نسل کے اقلیتی عوام کی حاکمیت قائم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اب نئے ملکی آئن کے تحت شمالی عراق میں حالات کو معمول پر لانے کے بعد اُس کے مستقبل کے تعین کے لئے مردم شماری اور پھر ریفرنڑم کرایا جانا طے پایا ہے۔
کرکوک میں بعض غیر کُرد گروپوں کا کہنا ہے کہ آئن کی شِق نمبر 140 صرف کُردوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ عراقی ترکمان فرنٹ نامی سیاسی جماعت کے نائب سربراہ جمال شان کا کہنا ہے کہ وہ اِس شِق کے نفاز کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے کیونکہ یہ شِق ترکمان علاقوں کی بقاءکے لئے خطرہ ہے۔ جمال شان کی جماعت کے ترکی کے ساتھ قریبی روابط ہیں اور عراقی پارلیمان میں اُسے تین نشستیں حاصل ہیں۔ کرکوک میں آباد مختلف نسلی گروپوں کے درمیان اختلافات کے باعث اِس علاقے کا مستقبل پہلے سے زیادہ غیر مستحکم نظر آنے لگا ہے۔
تیل کے وسیع زخائر کی وجہ سے کرکوک ایک عرصے سے عراقی سیاست کا سب سے متنازعہ مسئلہ ہے۔ اکثر کُردوں کا کہنا ہے کہ کرکوک ایک کُرد صوبہ ہے اور صدام حسین کے دور میں بڑی تعداد میں عرب نسل کے لوگوں کو باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت وہاں آباد کیا گیا تھا۔ کُرد عرام کی نظر میں ترکمان نسل کے لوگوں کا بھی کرکوک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاہم وہاں کا ہر نسلی گروپ اِس علاقے پر اپنے تاریخی حق کا دعوے دار ہے۔ اِسی لئے کُرد رہنماﺅں کی کوشش ہے کہ کرکوک کو ایک خود مختار کُرد علاقے میں شامل کرنے کے لئے شِق نمبر 140 پر جلد از جلد عمل درآمد کیا جائے، لیکن پڑوسی ملکوں بلخصوص ترکی کی جانب سے کُرد معاملات میں دخل اندازی نے حالات کو مذید پیچیدہ اور مسئلے کے حل کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔
ترکی کا دعویٰ ہے کہ وہ کرکوک میں ترکمان برادری کے مفادات کے لئے کام کر رہا ہے لیکن بعض ترکمان رہنماﺅں کے خیال میں ایک خود مختار کُرد علاقے میں شامل ہونا اُن کے لئے زیادہ بہتر ثابت ہو گا۔ تجزیر نگاروں کی رائے میں ترکی ایک خود مختار کُرد علاقے کے قیام کو روکنا چاہتا ہے تاکہ وہ اپنی کُرد آبادی کے علیحدگی پسند رجحانات پر قابو پا سکے۔ کرکوک کے دعوے داروں میں ترکی بھی شامل ہے، اِس بنیاد پر کہ خلافتِ عثمانیہ کے دور میں اِس پورے علاقے پر صدیوں تک ترکوں کی حاکمیت رہی ہے جو 1920 کے عشرے میں ایک جدید عراقی ریاست کے قیام تک جاری رہی۔ اِس تمام صورتِ حال اور عراق بھر خانہ جنگی کے بڑھتے ہوئے خدشات کے باعث کرکوک کا مستقبل اب بھی پہلے جتنا ہی غیر واضع نظر آ رہا ہے۔