عراقی شیعہ ملیشیا کا حملہ، درجنوں سنی نمازی ہلاک
22 اگست 2014عراقی دارالحکومت سے موصولہ رپورٹوں میں خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے بتایا ہے کہ بغداد سے 120 کلو میٹر شمال مشرق کی طرف واقع صوبے دیالہ میں یہ حملہ امام واعظ نامی گاؤں کی مصعب بن عمیر مسجد میں کیا گیا۔ عراقی فوج کے ایک اعلیٰ افسر اور پولیس کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ اس واقعے میں پہلے ایک خود کش حملہ آور اس مسجد میں داخل ہوا، جہاں اس نے نمازیوں کے عین بیچ میں خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔
اس خود کش بم دھماکے کے بعد اس حملہ آور سے محض چند ہی لمحے بعد مسجد میں داخل ہونے والے اس کے کئی مسلح ساتھیوں نے نمازیوں پر عین اس وقت اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی، جب بیسیوں افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے تھے اور ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔
خبر ایجنسی اے پی نے لکھا ہے کہ دیالہ میں یہ خونریز خود کش حملہ اور اس کے بعد اندھا دھند فائرنگ کا واقعہ حکام کے بقول فرقہ ورانہ کشیدگی کا نتیجہ ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے صوبائی اہلکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ خونریز کارروائی مبینہ طور پر ان شیعہ ملیشیا گروپوں کے ارکان نے کی ہے، جنہیں ایران کی حمایت حاصل ہے۔
دیالہ میں محکمہ صحت کے حکام کے بقول اس حملے کے بعد درجنوں ہلاک شدگان کی لاشیں مختلف قریبی ہسپتالوں میں پہنچا دی گئیں۔ ان میں سے صرف دیالہ کے صوبائی دارالحکومت بعقوبہ کے ہسپتالوں میں پہنچائی گئی لاشوں کی تعداد 60 سے زائد بتائی گئی ہے۔ بعقوبہ کے سرکاری مردہ خانے کے سربراہ کے مطابق جمعے کی شام تک وہاں امام واعظ نامی گاؤں سے کم از کم 68 لاشیں پہنچائی جا چکی تھیں۔
عراقی حکام کے مطابق آج کا یہ حملہ شیعہ ملیشیا ارکان نے کیا۔ لیکن اس سے قبل اس علاقے میں اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسند مقامی سنی آبادی کے دو بڑے قبائل کو اپنے طور پر یہ تنبیہ کر چکے تھے کہ انہیں اسلامک اسٹیٹ کی حمایت کا اعلان کر دینا چاہیے، جو انہوں نے اس حملے سے پہلے تک نہیں کیا تھا۔
دیالہ سے عراقی پارلیمان کی خاتون رکن ناہیدہ الدایانی کا تعلق بنیادی طور پر اسی امام واعظ گاؤں سے ہے، جہاں سنی مسلمانوں کی ایک مسجد میں آج حملہ کیا گیا۔ الدایانی نے روئٹرز کو بتایا کہ حملے کے وقت مسجد میں قریب ڈیڑھ سو نمازی موجود تھے۔ انہوں نے کہا، ’’یہ حملہ کرنے سے پہلے مسلح ملیشیا ارکان نے مسجد کے قریب سڑک کے کنارے ایک بم دھماکا بھی کیا تھا، جس میں سرکاری سکیورٹی اہلکاروں کی ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔‘‘
بغداد سے آمدہ اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ عراق میں سنی عسکریت پسندوں کی مسلسل پیش قدمی کے پس منظر میں ملک میں تمام مذہبی اورنسلی گروپوں کی نمائندہ حکومت کی قیام کی کوششوں کو آج کے اس ہلاکت خیز حملے سے شدید نقصان پہنچا ہے۔
اس حملے سے نامزد عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی کی سیاسی کوششیں بھی متاثر ہوں گی، جو خود بھی ایک شیعہ مسلمان ہیں اور بغداد کی نئی ملکی حکومت میں شیعہ اکثریت کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ سنی اقلیت اور کردوں کے علاوہ زیادہ سے زیادہ نسلی اور مذہبی گروپوں کی شمولیت کو بھی یقینی بنانا چاہتے ہیں۔