عرب اور مسلم ممالک کی سمٹ، غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ
11 نومبر 2023عرب اور مسلم ممالک نے غزہ میں جاری فوجی کارروائیوں کے فوری خاتمےکا مطالبہ کرتے ہوئے اسرائیل کو فلسطینیوں کے خلاف 'جرائم‘ کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا مشترکہ سربراہی اجلاس آج ہفتہ 11 نومبر کے روز سعودی دارالحکومت ریاض میں منعقد ہوا۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی میزبانی میں ہونے والے اس اجلاس کا مقصد غزہ میں جنگ بندی کے لیے امریکہ اور اسرائیل پر دباؤ ڈالنا تھا۔
اس اجلاس میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، ترک صدر رجب طیب ایردوآن، قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی اور شامی صدر بشار الاسد سمیت درجنوں رہنماؤں نے شرکت کی۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے اجلاس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب ''فلسطین میں ہمارے بھائیوں کے خلاف اس وحشیانہ جنگ کی مذمت اور اسے واضح طور پر مسترد‘‘ کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ''ہمیں ایک انسانی تباہی کا سامنا ہے، جو سلامتی کونسل اور بین الاقوامی برادری کی اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں کو ختم کرنے میں ناکامی کو ثابت کرتی ہے۔‘‘
فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا کہ فلسطینیوں کو ''نسل کشی کی جنگ‘‘ کا سامنا ہے۔ انہوں نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی ''جارحیت‘‘ فوری طور پر ختم کرائے۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اسلامی ممالک پر زور دیا کہ وہ اسرائیل پر تیل اور اشیاء کی تجارت سے متعلق پابندیاں عائد کریں۔ رئیسی نے اپنے خطاب میں مزید کہا، ''اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔‘‘
خیال رہے کہ سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل میں دہشت گردانہ حملے میں 1200 افراد کی ہلاکت کے بعد سے مشرق وسطیٰ کی صورت حال خطرے میں ہے۔ اس دہشت گردانہ حملے کے بعد سے اسرائیل کے غزہ پر فضائی اور زمینی حملے جاری ہیں، جن میں فلسطینی حکام کے مطابق کل جمعے کے روز تک 11,078 افراد ہلاک ہو چکے تھے، جن میں سے 40 فیصد بچے تھے۔
عرب ممالک منقسم
فلسطینی حکام کے مطابق غزہ شہر کے انتہائی پرہجوم ہسپتالوں کے قریب جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات لڑائی شدت اختیار کر گئی۔ غزہ میں وزارت صحت نے بتایا کہ اس خطے کے سب سے بڑے ہسپتال میں ایک بچہ بجلی بند ہونے کے بعد انکیوبیٹر میں دم توڑ گیا اور انتہائی نگہداشت میں ایک مریض اسرائیلی شیل لگنے سے ہلاک ہو گیا۔ اس جنگ نے مشرق وسطیٰ کے روایتی اتحاد کو ختم کر دیا ہے کیونکہ سعودی عرب نے گزشتہ کچھ عرصے میں ایران کے ساتھ زیادہ قریبی تعلقات قائم کرنے کے علاوہ حماس کی مذمت کرنے کے لیے امریکی دباؤ کو بھی پیچھے دھکیلا ہے اور اس کے ساتھ ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے اپنے منصوبوں کو بھی روک دیا ہے۔
دوسری طرف صدر ابراہیم رئیسی ایک دہائی سے زائد عرصے میں سعودی عرب کا دورہ کرنے والے پہلے ایرانی سربراہ مملکت ہیں۔ تہران اور ریاض نے مارچ میں چین کی ثالثی کے نتیجے میں ایک معاہدے کے تحت برسوں کی باہمی رقابت کا خاتمہ کیا تھا۔
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین تنازعے کا مستقل حل تلاش کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی امن کانفرنس بلانے کا مطالبہ کیا۔ صدر ایردوآن نے ریاض میں منعقدہ سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی جنگ میں صرف چند گھنٹوں کے وقفے کی نہیں بلکہ مستقل جنگ بندی کی ضرورت ہے۔
اسی طرح قطری امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کا کہنا تھا کہ ان کا ملک حماس کے زیر قبضہ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ثالثی کی کوشش کر رہا ہے اور امید ہے کہ جلد ہی انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر جنگ بندی ہو جائے گی۔ واضح رہے کہ حماس کے متعدد رہنما قطر میں مقیم ہیں۔
قطر کے امیر نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کب تک اسرائیل کے ساتھ ایسا سلوک کرے گی، کہ جیسے وہ بین الاقوامی قوانین سے بالاتر ہو۔ سعودی عرب کو ہفتے اور اتوار کے روز اسلامی تعاون کی تنظیم اور عرب لیگ کے دو الگ الگ غیر معمولی سربراہی اجلاسوں کی میزبانی کرنا تھی۔ تاہم بعد میں سعودی وزارت خارجہ نے اعلان کیا تھا کہ مشترکہ سربراہی اجلاس غزہ کی ''غیر معمولی‘‘ صورت حال کے پیش نظر دونوں اجتماعات کی جگہ لے لےگا۔
اس اجلاس میں شریک دو مندوبین نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے خاتمے کے حوالے سے عرب وزرائے خارجہ میں تقسیم پائی گئی کیونکہ الجزائر کی قیادت میں کچھ ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا جبکہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والے دیگر عرب ممالک نے وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت کے ساتھ 'راستے کھلے رکھنے‘ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے مطالبے کی مخالفت کی۔
ش ر⁄ م م، ع س (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)